تفسير ابن كثير



سورۃ المجادلة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ[14] أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ[15] اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ[16] لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ[17] يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ[18] اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ[19]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تو نے ان لوگوں کو نہیںدیکھا جنھوں نے ان لوگوں کو دوست بنا لیا جن پر اللہ غصے ہو گیا، وہ نہ تم سے ہیں اور نہ ان سے اور وہ جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔ [14] اللہ نے ان کے لیے بہت سخت عذاب تیار کیا ہے، بے شک یہ لوگ، برا ہے جو کچھ کرتے رہے ہیں۔ [15] انھوں نے اپنی قسموں کو ایک طرح کی ڈھال بنا لیا، پس انھوں نے اللہ کی راہ سے روکا، سو ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ [16] ان کے اموال اللہ کے مقابلے میں ہرگز ان کے کسی کام نہ آئیں گے اور نہ ہی ان کی اولاد۔ یہ لوگ آگ میں رہنے والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ [17] جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو وہ اس کے سامنے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمھارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اور گمان کریں گے کہ بے شک وہ کسی چیز پر (قائم) ہیں، سن لو! یقینا وہی اصل جھوٹے ہیں ۔ [18] شیطان ان پر غالب آگیا، سو اس نے انھیں اللہ کی یاد بھلا دی، یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ سن لو! یقینا شیطان کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ [19]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہوں نے اس قوم سے دوستی کی جن پر اللہ غضبناک ہوچکا ہے، نہ یہ (منافق) تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں باوجود علم کے پھر بھی جھوٹ پر قسمیں کھا رہے ہیں [14] اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، تحقیق جو کچھ یہ کر رہے ہیں برا کر رہے ہیں [15] ان لوگوں نے تو اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور لوگوں کو اللہ کی راه سے روکتے ہیں ان کے لیے رسوا کرنے واﻻ عذاب ہے [16] ان کے مال اور ان کی اوﻻد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی۔ یہ تو جہنمی ہیں ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے [17] جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھا کھڑا کرے گا تو یہ جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں (اللہ تعالیٰ) کے سامنے بھی قسمیں کھانے لگیں گے اور سمجھیں گے کہ وه بھی کسی (دلیل) پر ہیں، یقین مانو کہ بیشک وہی جھوٹے ہیں [18] ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کرلیا ہے، اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے یہ شیطانی لشکر ہے۔ کوئی شک نہیں کہ شیطانی لشکر ہی خسارے واﻻ ہے [19]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسوں سے دوستی کرتے ہیں جن پر خدا کا غضب ہوا۔ وہ نہ تم میں ہیں نہ ان میں۔ اور جان بوجھ کر جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاتے ہیں [14] خدا نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہ جو کچھ کرتے ہیں یقیناً برا ہے [15] انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے روک دیا ہے سو ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے [16] خدا کے (عذاب کے) سامنے نہ تو ان کا مال ہی کچھ کام آئے گا اور نہ اولاد ہی (کچھ فائدہ دے گی) ۔ یہ لوگ اہل دوزخ ہیں اس میں ہمیشہ (جلتے) رہیں گے [17] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا تو جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے (اسی طرح) خدا کے سامنے قسمیں کھائیں گے اور خیال کریں گے کہ (ایسا کرنے سے) کام لے نکلے ہیں۔ دیکھو یہ جھوٹے (اور برسر غلط) ہیں [18] شیطان نے ان کو قابو میں کرلیا ہے۔ اور خدا کی یاد ان کو بھلا دی ہے۔ یہ (جماعت) شیطان کا لشکر ہے۔ اور سن رکھو کہ شیطان کا لشکر نقصان اٹھانے والا ہے [19]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 14، 15، 16، 17، 18، 19،

دوغلے لوگوں کا کردار ٭٭

منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ اپنے دل میں یہود کی محبت رکھتے ہیں گو وہ اصل میں ان کے بھی حقیقی ساتھی نہیں ہیں، حقیقت میں نہ ادھر کے ہیں، نہ ادھر کے ہیں صاف جھوٹی قسمیں کھا جاتے ہیں، ایمانداروں کے پاس آ کر ان کی سے کہنے لگتے ہیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر قسمیں کھا کر اپنی ایمانداری کا یقین دلاتے ہیں اور دل میں اس کے خلاف جذبات پاتے ہیں اور اپنی اس غلط گوئی کا علم رکھتے ہوئے بے دھڑک قسمیں کھا لیتے ہیں، ان کی ان بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں سخت تر عذاب ہوں گے، اس دھوکہ بازی کا برابر بدلہ انہیں دیا جائے گا، یہ تو اپنی قسموں کو اپنی ڈھالیں بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کی راہ سے رک گئے ہیں، ایمان ظاہر کرتے ہیں، کفر دل میں رکھتے ہیں اور قسموں سے اپنی باطنی بدی کو چھپاتے ہیں اور ناواقف لوگوں پر اپنی سچائی کا ثبوت اپنی قسموں سے پیش کر کے انہیں اپنا مداح بنا لیتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ انہیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں، چونکہ انہوں نے جھوٹی قسموں سے اللہ تعالیٰ کے پر از صد ہزار تکریم نام کی بےعزتی کی تھی «مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا» [4-النساء:143] ‏‏‏‏ اس لیے انہیں ذلت و اہانت والے عذاب ہوں گے، جن عذابوں کو نہ ان کے مال دفع کر سکیں، نہ اس وقت ان کی اولاد انہیں کچھ کام دے سکے گی یہ تو جہنمی بن چکے اور وہاں سے ان کا نکلنا بھی کبھی نہ ہو گا۔ قیامت والے دن جب ان کا حشر ہو گا اور ایک بھی اس میدان میں آئے بغیر نہ رہے گا، سب جمع ہو جائیں گے تو چونکہ زندگی میں ان کی عادت تھی کہ اپنی جھوٹ بات کو قسموں سے سچ بات کر دکھاتے تھے، آج اللہ کے سامنے بھی اپنی ہدایت و استقامت پر بڑی بڑی قسمیں کھا لیں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ یہاں بھی یہ چالاکی چل جائے گی مگر ان جھوٹوں کی بھلا اللہ کے سامنے چال بازی کہاں چل سکتی ہے؟ وہ تو ان کا جھوٹا ہونا یہاں بھی مسلمانوں سے بیان فرما چکا۔
9369

ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے کے سائے میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آس پاس بیٹھے تھے سایہ دار جگہ کم تھی بمشکل لوگ اس میں پناہ لیے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو ابھی ایک شخص آئے گا جو شیطانی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ آئے تو اس سے بات نہ کرنا، تھوڑی دیر میں ایک کیری آنکھوں والا شخص آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلا کر فرمایا: کیوں بھئی تو اور فلاں اور فلاں مجھے کیوں گالیاں دیتے ہو؟ یہ یہاں سے چلا گیا اور جن جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا انہیں لے کر آیا اور پھر تو قسموں کا تانتا باندھ دیا کہ ہم میں سے کسی نے آپ کی کوئی بے ادبی نہیں کی۔ اس پر یہ آیت اتری کہ یہ جھوٹے ہیں۔ [مسند احمد:267/1:حسن] ‏‏‏‏

یہی حال مشرکوں کا بھی دربار الٰہی میں ہو گا «‏‏‏‏ثُمَّ لَمْ تَكُن فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا وَاللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ انظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ» [6-الانعام:23،24] ‏‏‏‏ قسمیں کھا جائیں گے کہ ہمیں اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے کہ ہم نے شرک نہیں کیا۔

پھر فرماتا ہے ان پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے اور ان کے دل کو اپنی مٹھی میں کر لیا ہے، یاد اللہ، ذکر اللہ سے انہیں دور ڈال دیا ہے۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس کسی بستی یا جنگل میں تین شخص بھی ہوں اور ان میں نماز نہ قائم کی جاتی ہو تو شیطان ان پر چھا جاتا ہے پس تو جماعت کو لازم پکڑے رہ، بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو۔‏‏‏‏ سائب رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں مراد جماعت سے نماز کی جماعت ہے۔ [سنن ابوداود:547،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ اللہ کے ذکر کو فراموش کرنے والے اور شیطان کے قبضے میں پھنس جانے والے شیطانی جماعت کے افراد ہیں، شیطان کا یہ لشکر یقیناً نامراد اور زیاں کار ہے۔
9370



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.