تفسير ابن كثير



سورۃ الممتحنة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً وَاللَّهُ قَدِيرٌ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ[7] لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ[8] إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ[9]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] قریب ہے کہ اللہ تمھارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم ان میں سے دشمنی رکھتے ہو، دوستی پیدا کر دے اور اللہ بہت قدرت رکھنے والاہے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [7] اللہ تمھیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنھوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ [8] اللہ تو تمھیں انھی لوگوں سے منع کرتا ہے جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا اور تمھارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو۔ اور جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ [9]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالیٰ تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے۔ اللہ کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ (بڑا) غفور رحیم ہے [7] جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے [8] اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں شہر سے نکال دیئے اور شہر سے نکالنے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وه (قطعاً) ﻇالم ہیں [9]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] عجب نہیں کہ خدا تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تم دشمنی رکھتے ہو دوستی پیدا کردے۔ اور خدا قادر ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے [7] جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے [8] خدا ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں [9]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 7، 8، 9،

کفار سے محبت کی ممانعت کی دوبارہ تاکید ٭٭

کافروں سے محبت رکھنے کی ممانعت اور ان کی بغض و عداوت کے بیان کے بعد اب ارشاد ہوتا ہے کہ بسا اوقات ممکن ہے کہ ابھی ابھی اللہ تم میں اور ان میں میل ملاپ کرا دے، بغض، نفرت اور فرقت کے بعد محبت موّدت اور الفت پیدا کر دے، کون سی چیز ہے جس پر اللہ قادر نہ ہو؟ وہ متبائن اور مختلف چیزوں کو جمع کر سکتا ہے، عداوت و قساوت کے بعد دلوں میں الفت و محبت پیدا کر دینا اس کے ہاتھ ہے۔

جیسے اور جگہ انصار پر اپنی نعمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے «وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا» [3-آل عمران:103] ‏‏‏‏ الخ ” تم پر جو اللہ کی نعمت ہے اسے یاد کرو کہ تمہاری دلی عداوت کو اس نے الفت قلبی سے بدل دیا اور تم ایسے ہو گئے جیسے ماں جائے بھائی ہوں تم آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے لیکن اس نے تمہیں وہاں سے بچا لیا۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں سے فرمایا: کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی اور تم متفرق تھے میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں جمع کر دیا۔ [صحیح بخاری:4330] ‏‏‏‏
9448

قرآن کریم میں ہے «هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ» [8-الأنفال:63] ‏‏‏‏ ” اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد سے مومنوں کو ساتھ کر کے، اے نبی! تیری مدد کی اور ایمان داروں میں آپس میں وہ محبت اور یکجہتی پیدا کر دی کہ اگر روئے زمین کی دولت خرچ کرتے اور یگانگت پیدا کرنا چاہتے تو وہ نہ کر سکتے یہ الفت منجانب اللہ تھی جو عزیز و حکیم ہے “۔

ایک حدیث میں ہے دوستوں کی دوستی کے وقت بھی اس بات کو پیش نظر رکھو کہ کیا عجب اس سے کسی وقت دشمنی ہو جائے اور دشمنوں کی دشمنی میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو کیا خبر کب دوستی ہو جائے۔ [سنن ترمذي:1997،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

عرب شاعر کہتا ہے «وَقَدْ يَجْمَع اللَّه الشَّتِيتَيْنِ بَعْد مَا» «‏‏‏‏يَظُنَّانِ كُلّ الظَّنّ أَنْ لَا تَلَاقِيَا» یعنی ایسے دو دشمنوں میں بھی جو ایک سے ایک جدا ہوں اور اس طرح کہ دل میں گرہ دے لی ہو کہ ابد الآباد تک اب کبھی نہ ملیں گے اللہ تعالیٰ اتفاق و اتحاد پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح ایک ہو جاتے ہیں کہ گویا کبھی دو نہ تھے، اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے، کافر جب توبہ کریں تو اللہ قبول فرما لے گا جب وہ اس کی طرف جھکیں وہ انہیں اپنے سائے میں لے لے گا، کوئی سا گناہ ہو اور کوئی سا گنہگار ہو مالک کی طرف جھکا ادھر اس کی رحمت کی آغوش کھلی۔
9449

مقاتل بن حیان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت ابوسفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان کی صاحبزادی صاحبہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا تھا اور یہی مناکحت حجت کا سبب بن گئی، لیکن یہ قول کچھ جی کو نہیں لگتا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح فتح مکہ سے بہت پہلے ہوا تھا اور سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا اسلام بالاتفاق فتح مکہ کی رات کا ہے، بلکہ اس سے بہت اچھی توجیہ تو وہ ہے جو ابن ابی حاتم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوسفیان صخر بن حرب رضی اللہ عنہ کو کسی باغ کے پھلوں کا عامل بنا رکھا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد یہ آ رہے تھے کہ راستے میں ذوالحمار مرتد مل گیا، آپ نے اس سے جنگ کی اور باقاعدہ لڑے، پس مرتدین سے پہلے پہل لڑائی لڑنے والے مجاہد فی الدین آپ رضی اللہ عنہ ہیں، ابن شہاب رحمہ اللہ کا قول ہے کہ انہی کے بارے میں یہ آیت «‏‏‏‏عَسَى اللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً وَاللَّهُ قَدِيرٌ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» ‏‏‏‏ [الممتحنہ:7] ‏‏‏‏، اتری ہے۔
9450

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میری تین درخواستیں ہیں اگر اجازت ہو تو عرض کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو اس نے کہا، اول تو یہ کہ مجھے اجازت دیجئیے کہ جس طرح میں کفر کے زمانے میں مسلمانوں سے مسلسل جنگ کرتا رہا اب اسلام کے زمانہ میں کافروں سے برابر لڑائی جاری رکھوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منظور فرمایا، پھر کہا: میرے لڑکے معاویہ کو اپنا منشی بنا لیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی منظور فرمایا [ اس پر جو کلام ہے وہ پہلے گزر چکا ہے ] ‏‏‏‏ اور میری بہترین عرب بچی ام حبیبہ کو آپ اپنی زوجیت میں قبول فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی منظور فرما لیا۔ [صحیح مسلم:2501] ‏‏‏‏ [ اس پر بھی کلام پہلے گزر چکا ہے ] ‏‏‏‏۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جن کفار نے تم سے مذہبی لڑائی نہیں کی، نہ تمہیں جلا وطن کیا جیسے عورتیں اور کمزور لوگ وغیرہ ان کے ساتھ سلوک و احسان اور عدل و انصاف کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا بلکہ وہ تو ایسے باانصاف لوگوں سے محبت رکھتا ہے، بخاری مسلم میں ہے کہ سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے پاس ان کی مشرک ماں آئیں یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح نامہ ہو چکا تھا، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہما خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر مسئلہ پوچھتی ہیں کہ میری ماں آئی ہوئی ہیں اور اب تک وہ اس دین سے الگ ہیں کیا مجھے جائز ہے کہ میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جاؤ ان سے صلہ رحمی کرو۔ [صحیح بخاری:2620] ‏‏‏‏
9451

مسند کی اس روایت میں ہے کہ ان کا نام قتیلہ تھا، یہ مکہ سے گوہ، پنیر اور گھی بطور تحفہ لے کر آئی تھیں، لیکن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی مشرکہ ماں کو نہ تو اپنے گھر میں آنے دیا، نہ یہ تحفہ ہدیہ قبول کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت پر ہدیہ بھی لیا اور اپنے ہاں ٹھہرایا بھی، بزار کی حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام بھی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لیے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا نام ام رومان تھا اور وہ اسلام لا چکی تھیں اور ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائی تھیں، ہاں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان نہ تھیں، چنانچہ ان کا نام قتیلہ اوپر کی حدیث میں مذکور ہے۔ [مسندبزار2/365ضعیف] ‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
9452

«مُقْسِطِينَ» کی تفسیر سورۃ الحجرات میں گزر چکی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، حدیث میں ہے «مُقْسِطِينَ» وہ لوگ ہیں جو عدل کے ساتھ حکم کرتے ہیں گو اہل و عیال کا معاملہ ہو یا زیر دستوں کا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عرش کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے۔ [صحیح مسلم:1827] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ممانعت تو ان لوگوں کی دوستی سے ہے جو تمہاری عداوت سے تمہارے مقابل نکل کھڑے ہوئے، تم سے صرف تمہارے مذہب کی وجہ سے لڑے جھگڑے، تمہیں تمہارے شہروں سے نکال دیا، تمہارے دشمنوں کی مدد کی۔ پھر مشرکین سے اتحاد و اتفاق، دوستی، یکجہتی رکھنے والے کو دھمکاتا ہے اور اس کا گناہ بتاتا ہے کہ ایسا کرنے والے ظالم گناہ گار ہیں اور جگہ فرمایا «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ» [5-المائدہ:51] ‏‏‏‏ یہودیوں نصرانیوں سے دوستی کرنے والا ہمارے نزدیک انہی جیسا ہے۔
9453



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.