تفسير ابن كثير



سورۃ الطلاق

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا[4] ذَلِكَ أَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَهُ إِلَيْكُمْ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا[5]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور وہ عورتیں جو تمھاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہیں، اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کر دیں اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا ۔ [4] یہ اللہ کا حکم ہے جسے اس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے بڑا اجر دے گا۔ [5]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو گئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا [4] یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا ہے اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناه مٹا دے گا اور اسے بڑا بھاری اجر دے گا [5]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور تمہاری (مطلقہ) عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تم کو (ان کی عدت کے بارے میں) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور جن کو ابھی حیض نہیں آنے لگا (ان کی عدت بھی یہی ہے) اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچّہ جننے) تک ہے۔ اور جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کے کام میں سہولت پیدا کردے گا [4] یہ خدا کے حکم ہیں جو خدا نے تم پر نازل کئے ہیں۔ اور جو خدا سے ڈرے گا وہ اس سے اس کے گناہ دور کر دے گا اور اسے اجر عظیم بخشے گا [5]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 4، 5،

مسائل عدت ٭٭

جن بڑھیا عورتوں کی اپنی بڑی عمر کی وجہ سے ایام بند ہو گئے ہوں یہاں ان کی عدت بتائی جاتی ہے کہ تین مہینے کی عدت گزاریں، جیسے کہ ایام والی عورتوں کی عدت تین حیض ہے۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ کی آیت «وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا» [2-البقرة:234] ‏‏‏‏ ” تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وه عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس (‏‏‏‏دن) عدت میں رکھیں “۔

اسی طرح وہ لڑکیاں جو اس عمر کو نہیں پہنچیں کہ انہیں حیض آئے، ان کی عدت بھی یہی تین مہینے رکھی، اگر تمہیں شک ہو، اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ خون دیکھ لیں اور تمہیں شبہ گزرے کہ آیا حیض کا خون ہے یا استخاضہ کی بیماری کا۔
9572

دوسرا قول یہ ہے کہ ان کی عدت کے حکم میں تمہیں شک باقی رہ جائے اور تم اسے نہ پہچان سکو تو تین مہینے یاد رکھو لو۔‏‏‏‏ یہ دوسرا قول ہی زیادہ ظاہر ہے، اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا یا رسول اللہ! بہت سی عورتوں کی عدت ابھی بیان نہیں ہوئی، کمسن لڑکیاں، بوڑھی بڑی عورتیں اور حمل والی عورتیں اس کے جواب میں یہ آیت اتری ۔ [مستدرک حاکم:392/4:منقطع ضعیف] ‏‏‏‏

پھر حاملہ کی عدت بیان فرمائی کہ ” وضع حمل اس کی عدت ہے، گو طلاق یا خاوند کی موت کے ذرا سی دیر بعد ہی ہو جائے “، جیسے کہ اس آیت کریمہ کے الفاظ ہیں اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور جمہور علماء سلف و خلف کا قول ہے۔

ہاں سیدنا علی ابن طالب اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ سورۃ البقرہ کی آیت اور اس آیت کو ملا کر ان کا فتویٰ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو زیادہ دیر میں ختم ہو وہ عدت یہ گزارے یعنی اگر بچہ تین مہینے سے پہلے پیدا ہو گیا تو تین مہینے کی عدت ہے اور تین مہینے گزر چکے اور بچہ نہیں ہوا تو بچے کے ہونے تک عدت ہے۔‏‏‏‏
9573

صحیح بخاری میں سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور اس وقت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے اس نے سوال کیا کہ اس عورت کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے جسے اپنے خاوند کے انتقال کے بعد چالیسویں دن بچہ ہو جائے؟ آپ نے فرمایا: دونوں عدتوں میں سے آخری عدت اسے گزارنی پڑے گی یعنی اس صورت میں تین مہینے کی عدت اس پر ہے۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن میں تو ہے کہ حمل والیوں کی عدت بچہ کا ہو جانا ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اپنے چچا زاد بھائی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں یعنی میرا بھی یہی فتویٰ ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسی وقت اپنے غلام کریب کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا کہ جاؤ ان سے یہ مسئلہ پوچھ آؤ انہوں نے فرمایا: سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر قتل کئے گئے اور یہ اس وقت امید سے تھیں، چالیس راتوں کے بعد بچہ ہو گیا، اسی وقت نکاح کا پیغام آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر دیا پیغام دینے والوں میں ابوالسنابل بھی تھے ۔ [صحیح بخاری:4909] ‏‏‏‏ یہ حدیث قدرے طوالت کے ساتھ اور کتابوں میں بھی ہے۔
9574

عبداللہ بن عتبہ رحمہ اللہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری رحمہ اللہ کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے ان کا واقعہ دریافت کر کے انہیں لکھ بھیجیں، یہ گئے، دریافت کیا اور لکھا کہ ان کے خاوند سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ تھے یہ بدری صحابی تھے حجتہ الوداع میں فوت ہو گئے اس وقت یہ حمل سے تھیں، تھوڑے ہی دن کے بعد انہیں بچہ پیدا ہو گیا، جب نفاس سے پاک ہوئیں تو اچھے کپڑے پہن کر بناؤ سنگھار کر کے بیٹھ گئیں ابوالسنابل بن بعلک رضی اللہ عنہ جب ان کے پاس آئے تو انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہنے لگے تم جو اس طرح بیٹھی ہو تو کیا نکاح کرنا چاہتی ہو، واللہ! تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک کہ چار مہینے دس دن نہ گزر جائیں۔

میں یہ سن کر چادر اوڑھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ پیدا ہوتے ہی تم عدت سے نکل گئیں اب تمہیں اختیار ہے اگر چاہو تو اپنا نکاح کر لو
۔ [صحیح بخاری:3991] ‏‏‏‏
9575

صحیح بخاری میں اس آیت کے تحت اس حدیث کے وارد کرنے کے بعد یہ بھی ہے کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ ایک مجلس میں تھے، جہاں عبدالرحمٰن بن ابو یعلیٰ بھی تھے، جن کی تعظیم تکریم ان کے ساتھی بہت ہی کیا کرتے تھے، انہوں نے حاملہ کی عدت آخری دو عدتوں کی میعاد بتائی، اس پر میں نے سبیعہ رضی اللہ عنہا والی حدیث بیان کی، اس پر میرے بعض ساتھی مجھے ٹہوکے لگانے لگے، میں نے کہا: پھر تو میں نے بڑی جرأت کی اگر عبداللہ پر میں نے بہتان باندھا حالانکہ وہ کوفہ کے کونے میں زندہ موجود ہیں، پس وہ ذرا شرما گئے اور کہنے لگے لیکن ان کے چچا تو یہ نہیں کہتے، میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا، انہوں نے مجھے سبیعہ رضی اللہ عنہا والی حدیث پوری سنائی، میں نے کہا: تم نے اس بابت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی کچھ سنا ہے؟ فرمایا: یہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے، آپ نے فرمایا: کیا تم اس پر سختی کرتے ہو اور رخصت نہیں دیتے؟ سورۃ نساء قصریٰ یعنی سورۃ الطلاق سورۃ نساء طولی کے بعد اتری ہے اور اس میں فرمان ہے کہ ” حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے “۔ [صحیح بخاری:4910] ‏‏‏‏

ابن جریر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو «ملاعنہ» کرنا چاہے، میں اس سے «ملاعنہ» کرنے کو تیار ہوں یعنی میرے فتوے کے خلاف جس کا فتویٰ ہو میں تیار ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں آئے اور جھوٹے پر اللہ لعنت کرے، میرا فتویٰ یہ ہے کہ حمل والی کی عدت بچہ کا پیدا ہو جانا ہے، پہلے عام الحکم تھا کہ جن عورتوں کے خاوند مر جائیں وہ چار مہینے دس دن عدت گزاریں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ حمل والیوں کی عدت بچے کا پیدا ہو جانا ہے پس یہ عورتیں ان عورتوں میں سے مخصوص ہو گئیں اب مسئلہ یہی ہے کہ جس عورت کا خاوند مر جائے اور وہ حمل سے ہو تو جب حمل سے فارغ ہو جائے، عدت سے نکل گئی۔
9576

ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ سیدنا علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کی عدت ان دونوں عدتوں میں سے جو آخری ہو وہ ہے۔ [سنن ابوداود:2307،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حمل والیوں کی عدت جو وضع حمل ہے یہ تین طلاق والیوں کی عدت ہے یا فوت شدہ خاوند والیوں کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:34317:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث بہت غریب ہے بلکہ منکر ہے اس لیے کہ اس کی اسناد میں مثنی بن صباح ہے اور وہ بالکل متروک الحدیث ہے، لیکن اس کی دوسری سندیں بھی ہیں۔

پھر فرماتا ہے ” اللہ تعالیٰ متقیوں کے لیے ہر مشکل سے آسانی اور ہر تکلیف سے راحت عنایت فرما دیتا ہے، یہ اللہ کے احکام اور اس کی پاک شریعت ہے جو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے تمہاری طرف اتار رہا ہے اللہ سے ڈرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اور چیزوں کے ڈر سے بچا لیتا ہے اور ان کے تھوڑے عمل پر بڑا اجر دیتا ہے “۔
9577



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.