تفسير ابن كثير



سورۃ الملك

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ[6] إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ[7] تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ[8] قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ[9] وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ[10] فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقًا لِأَصْحَابِ السَّعِيرِ[11]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور خاص ان لوگوں کے لیے جنھوں نے اپنے رب کا انکار کیا، جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔ [6] جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے، اس کے لیے گدھے کے زور سے چیخنے جیسی آواز سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہو گی۔ [7] قریب ہو گی کہ غصے سے پھٹ جائے۔ جب بھی کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا، اس کے نگران ان سے پوچھیں گے کیا تمھارے پا س کوئی ڈرانے والا نہیں آیا؟ [8] وہ کہیں گے کیوں نہیں؟ یقینا ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تو ہم نے جھٹلا دیا اور ہم نے کہا اللہ نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم تو ایک بڑی گمراہی میں ہی پڑے ہوئے ہو۔ [9] اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے ۔ [10] پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے، سو دوری ہے بھڑکتی ہوئی آگ والوں کے لیے۔ [11]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وه کیا ہی بری جگہ ہے [6] جب اس میں یہ ڈالے جائیں گے تو اس کی بڑے زور کی آواز سنیں گے اور وه جوش مار رہی ہوگی [7] قریب ہے کہ (ابھی) غصے کے مارے پھٹ جائے، جب کبھی اس میں کوئی گروه ڈاﻻ جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے واﻻ کوئی نہیں آیا تھا؟ [8] وه جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نےکچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ تم بہت بڑی گمراہی میں ہی ہو [9] اور کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں (شریک) نہ ہوتے [10] پس انہوں نے اپنے جرم کا اقبال کر لیا۔ اب یہ دوزخی دفع ہوں (دور ہوں) [11]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے انکار کیا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔ اور وہ برا ٹھکانہ ہے [6] جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے تو اس کا چیخنا چلانا سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہوگی [7] گویا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔ جب اس میں ان کی کوئی جماعت ڈالی جائے گی تو دوزخ کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کہ تمہارے پاس کوئی ہدایت کرنے والا نہیں آیا تھا؟ [8] وہ کہیں گے کیوں نہیں ضرور ہدایت کرنے والا آیا تھا لیکن ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور کہا کہ خدا نے تو کوئی چیز نازل ہی نہیں کی۔ تم تو بڑی غلطی میں (پڑے ہوئے) ہو [9] اور کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے ہوتے تو دوزخیوں میں نہ ہوتے [10] پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کرلیں گے۔ سو دوزخیوں کے لئے (رحمت خدا سے) دور ہی ہے [11]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 6، 7، 8، 9، 10، 11،

جہنم کا داروغہ سوال کرے گا ٭٭

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے، وہ جہنمی ہے اس کا انجام اور جگہ بد سے بد ہے “۔ یہ بلند اور مکروہ گدھے کی سی آوازیں مارنے والی جہنم ہے جو ان پر جل رہی ہے، اور جوش و غضب سے اس طرح کچ کچا رہی ہے کہ گویا ابھی ٹوٹ پھوٹ جائے گی، اور دوزخیوں کو زیادہ ذلیل کرنے اور آخری حجت قائم کرنے اور اقبالی مجرم بنانے کے لیے داروغہ جہنم ان سے پوچھتے ہیں کہ بدنصیبو! کیا اللہ کے رسولوں نے تمہیں اس سے ڈرایا نہ تھا؟ تو یہ ہائے وائے کرتے ہوئے اپنی جانوں کو کوستے ہوئے جواب دیتے ہیں آئے تو تھے لیکن وائے بدنصیبی کہ ہم نے انہیں جھوٹا جانا اور اللہ کی کتاب کو بھی نہ مانا اور پیغمبروں کو بےراہ بتایا۔

اب عدل اللہ صاف ثابت ہو چکا ہے اور فرمان باری پورا اترتا ہے جو اس نے فرمایا «وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا» [17-الإسراء:15] ‏‏‏‏ ” ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے “۔

اور جگہ ارشاد ہے «‏‏‏‏وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتّىٰٓ اِذَا جَاءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ» ‏‏‏ [39-الزمر:71] ‏‏‏‏ الخ ” جب جہنمی جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے، اور جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور داروغہ جہنم ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے تو کہیں گے ہاں آئے تو تھے اور ڈرا بھی دیا تھا لیکن کافروں پر کلمہ عذاب حق ہو گیا “۔

اب اپنے آپ کو ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ اگر ہمارے کان ہوتے، اگر ہم میں عقل ہوتی تو دھوکے میں نہ پڑے رہتے، اپنے خالق مالک کے ساتھ کفر نہ کرتے، نہ رسولوں کو جھٹلاتے، نہ ان کی تابعداری سے منہ موڑتے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” اب تو انہوں نے خود اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا ان کے لیے لعنت ہو، دوری ہو “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگ جب تک دنیا میں اپنے آپ میں غور کریں گے اور اپنی برائیوں کو خود دیکھ لیں گے ہلاک نہ ہوں گے۔‏‏‏‏ [سنن ابوداود:4347،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ قیامت والے دن اس طرح حجت قائم کی جائے گی کہ خود انسان سمجھ لے گا کہ میں دوزخ میں جانے کے ہی قابل ہوں ۔ [مسند احمد:موضوع] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں ہمیں یہ روایت نہیں ملی)
9633



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.