تفسير ابن كثير



سورۃ الملك

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَمَّنْ هَذَا الَّذِي هُوَ جُنْدٌ لَكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ[20] أَمَّنْ هَذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ[21] أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ[22] قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ[23] قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ[24] وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[25] قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ[26] فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَدَّعُونَ[27]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یا کون ہے وہ جو تمھارا لشکر ہو، تمھاری مدد کرے، رحمان کے مقابلے میں؟ کافر دھوکے کے سوا کسی کھاتے میں نہیں ہیں۔ [20] یا وہ کون ہے جو تمھیں رزق دے، اگر وہ اپنا رزق روک لے؟ بلکہ وہ سرکشی اور بدکنے پر اڑے ہوئے ہیں۔ [21] تو کیا وہ شخص جو اپنے منہ کے بل الٹا ہو کر چلتا ہے، زیادہ ہدایت والا ہے، یا وہ جو سیدھا ہو کر درست راستے پر چلتا ہے؟ [22] کہہ دے وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے، تم کم ہی شکر کرتے ہو۔ [23] کہہ دے وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں پھیلایا اور تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے۔ [24] اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو؟ [25] کہہ دے یہ علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تو بس ایک کھلا ڈرانے والا ہوں۔ [26] پس جب وہ اس کو قریب دیکھیں گے تو ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے جنھوں نے انکار کیا اور کہا جائے گا یہی ہے وہ جو تم مانگا کرتے تھے۔ [27]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] سوائے اللہ کے تمہارا وه کون سا لشکر ہے جو تمہاری مدد کرسکے کافر تو سراسر دھوکے ہی میں ہیں [20] اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا؟ بلکہ (کافر) تو سرکشی اور بدکنے پر اڑگئے ہیں [21] اچھا وه شخص زیاده ہدایت واﻻ ہے جو اپنے منھ کے بل اوندھا ہو کر چلے یا وه جو سیدھا (پیروں کے بل) راه راست پر چلا ہو؟ [22] کہہ دیجئے کہ وہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو [23] کہہ دیجئے! کہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا اور اس کی طرف سے تم اکٹھے کیے جاؤ گے [24] (کافر) پوچھتے ہیں کہ وه وعده کب ﻇاہر ہوگا اگر تم سچے ہو (تو بتاؤ؟) [25] آپ کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے، میں تو صرف کھلے طور پر آگاه کر دینے واﻻ ہوں [26] جب یہ لوگ اس وعدے کو قریب تر پالیں گے اس وقت ان کافروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ یہی ہے جسے تم طلب کیا کرتے تھے [27]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا ایسا کون ہے جو تمہاری فوج ہو کر خدا کے سوا تمہاری مدد کرسکے۔ کافر تو دھوکے میں ہیں [20] بھلا اگر وہ اپنا رزق بند کرلے تو کون ہے جو تم کو رزق دے؟ لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں [21] بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر پڑتا ہے وہ سیدھے رستے پر ہے یا وہ جو سیدھے رستے پر برابر چل رہا ہو؟ [22] کہو وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے (مگر) تم کم احسان مانتے ہو [23] کہہ دو کہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلایا اور اسی کے روبرو تم جمع کئے جاؤ گے [24] اور کافر کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ وعید کب (پورا) ہوگا؟ [25] کہہ دو اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ اور میں تو کھول کھول کر ڈر سنانے دینے والا ہوں [26] سو جب وہ دیکھ لیں گے کہ وہ (وعدہ) قریب آگیا تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے اور (ان سے) کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس کے تم خواستگار تھے [27]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 20، 21، 22، 23، 24، 25، 26، 27،

رزاق صرف رب قدیر ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس عقیدے کی تردید کر رہا ہے جو وہ خیال رکھتے تھے کہ جن بزرگوں کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی امداد کر سکتے ہیں اور انہیں روزیاں پہنچا سکتے ہیں فرماتا ہے کہ ” سوائے اللہ کے نہ تو کوئی مدد دے سکتا ہے، نہ روزی پہنچا سکتا ہے، نہ بچا سکتا ہے، کافروں کا یہ عقیدہ محض ایک دھوکہ ہے “۔

اگر اب اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری روزیاں روک لے تو پھر کوئی بھی انہیں جاری نہیں کر سکتا، دینے لینے پر، پیدا کرنے اور فنا کرنے پر، رزق دینے اور مدد کرنے پر صرف اللہ عزوجل «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» کو ہی قدرت ہے۔ یہ لوگ خود اسے دل سے جانتے ہیں، تاہم اعمال میں اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار اپنی گمراہی، کج روی، گناہ اور سرکشی میں بہے چلے جاتے ہیں ان کی طبیعتوں میں ضد، تکبر اور حق سے انکار بلکہ حق کی عداوت بیٹھ چکی ہے، یہاں تک کہ پہلی باتوں کا سننا بھی انہیں گوارا نہیں عمل کرنا تو کہاں؟

پھر مومن و کافر کی مثال بیان فرماتا ہے کہ ” کافر کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی شخص کمر کبڑی کر کے سر جھکائے نظریں نیچی کئے چلا جا رہا ہے نہ راہ دیکھتا ہے، نہ اسے معلوم ہے کہ کہاں جا رہا ہے بلکہ حیران، پریشان، راہ بھولا اور ہکا بکا ہے۔ اور مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سیدھی راہ پر، سیدھا کھڑا ہوا چل رہا ہے، راستہ خود صاف اور بالکل سیدھا ہے یہ شخص خود اسے بخوبی جانتا ہے اور برابر صحیح طور پر اچھی چال سے چل رہا ہے، یہی حال ان کا قیامت کے دن ہو گا کہ کافر تو اوندھے منہ جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے اور مسلمان عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے “۔

جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْجَحِيمِ» [37-الصافات:23،22] ‏‏‏‏ الخ، ” ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا تھے جمع کر کے جہنم کا راستہ دکھا دو “۔
9648

مجرموں کا منہ کے بل چلایا جانا ٭٭

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! لوگ منہ کے بل چل کر کس طرح حشر کئے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے انہیں اپنے پیروں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ [صحیح بخاری:4760] ‏‏‏‏

اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پہلی مرتبہ جب کہ تم کچھ نہ تھے پیدا کیا تمہیں کان آنکھ اور دل دیئے یعنی عقل و ادراک تم میں پیدا کیا لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو یعنی اپنی ان قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی حکم برداری میں اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے میں بہت ہی کم خرچ کرتے ہو۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین پر پھیلا دیا، تمہاری زبانیں جدا، تمہارے رنگ روپ جدا، تمہاری شکلوں صورتوں میں اختلاف۔ اور تم زمین کے چپہ چپہ پر بسا دیئے گئے، پھر اس پراگندگی اور بکھرنے کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ تم سب اس کے سامنے لا کر کھڑے کر دیئے جاؤ گے اس نے جس طرح تمہیں ادھر ادھر پھیلا دیا ہے، اسی طرح ایک طرف سمیٹ لے گا اور جس طرح اولاً اس نے تمہیں پیدا کیا دوبارہ تمہیں لوٹائے گا۔
9649

دوبارہ بٹھایا جانا ٭٭

پھر بیان ہوتا ہے کہ ” کافر مر کر دوبارہ جینے کے قائل نہیں وہ اس دوسری زندگی کو محال اور ناممکن سمجھتے ہیں اس کا بیان سن کر اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا پھر وہ وقت کب آئے گا جس کی ہمیں خبر دے رہے ہو، تو بتا دو کہ اس پراگندگی کے بعد اجتماع کب ہو گا؟ “

اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ” ان کو جواب دو کہ اس کا علم مجھے نہیں کہ قیامت کب قائم ہو گی؟ اسے تو صرف وہی علام الغیوب جانتا ہے، ہاں اتنا مجھے کہا گیا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور، میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں تمہیں خبردار کر دوں اور اس دن کی ہولناکیوں سے مطلع کر دوں، میرا فرض صرف تمہیں پہنچا دینا تھا جسے بحمد للہ میں ادا کر چکا “۔

پھر ارشاد باری ہوتا ہے کہ ” جب قیامت قائم ہونے لگے گی اور کفار اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ اب وہ قریب آ گئی کیونکہ ہر آنے والی چیز آ کر ہی رہتی ہے، گو دیر سویر سے آئے، جب اسے آیا ہوا پا لیں گے، جسے اب تک جھٹلاتے رہے تو انہیں بہت برا لگے گا کیونکہ اپنی غفلت کا نتیجہ سامنے دیکھنے لگیں گے اور قیامت کی ہولناکیاں بدحواس کئے ہوئے ہوں گی، آثار سب سامنے ہوں گے “، اس وقت ان سے بطور ڈانٹ کے اور بطور تذلیل کرنے کے کہا جائے گا یہی ہے ” جس کی تم جلدی مچا رہے تھے “۔
9650



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.