تفسير ابن كثير



سورۃ نوح

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا[11] وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا[12] مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا[13] وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا[14] أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا[15] وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا[16] وَاللَّهُ أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا[17] ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا[18] وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا[19] لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا[20]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا۔ [11] اور وہ مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں باغات عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ [12] تمھیں کیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت سے نہیں ڈرتے۔ [13] حالانکہ یقینا اس نے تمھیں مختلف حالتوں میں پیدا کیا۔ [14] کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے پیدا فرمایا۔ [15] اور اس نے ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنا دیا۔ [16] اور اللہ نے تمھیں زمین سے اگایا، خاص طریقے سے اگانا۔ [17] پھر دوبارہ وہ تمھیں اس میں لوٹائے گا اور تمھیں نکالے گا، خاص طریقے سے نکالنا۔ [18] اور اللہ نے تمھارے لیے زمین کو ایک فرش بنا دیا۔ [19] تاکہ تم اس کے کھلے راستوں پر چلو۔ [20]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] وه تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا [11] اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اوﻻد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا [12] تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی برتری کا عقیده نہیں رکھتے [13] حاﻻنکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے [14] کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے کس طرح سات آسمان پیدا کر دیئے ہیں [15] اور ان میں چاند کو جگمگاتا بنایا ہے اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے [16] اور تم کو زمین سے ایک (خاص اہتمام سے) اگایا ہے (اور پیدا کیا ہے) [17] پھر تمہیں اسی میں لوٹا لے جائے گا اور (ایک خاص طریقہ) سے پھر نکالے گا [18] اور تمہارے لیے زمین کو اللہ تعالیٰ نے فرش بنادیا ہے [19] تاکہ تم اس کی کشاده راہوں میں چلو پھرو [20]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا [11] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا [12] تم کو کیا ہوا ہے کہ تم خدا کی عظمت کا اعتقاد نہیں رکھتے [13] حالانکہ اس نے تم کو طرح طرح (کی حالتوں) کا پیدا کیا ہے [14] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ہیں [15] اور چاند کو ان میں (زمین کا) نور بنایا ہے اور سورج کو چراغ ٹھہرایا ہے [16] اور خدا ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے [17] پھر اسی میں تمہیں لوٹا دے گا اور (اسی سے) تم کو نکال کھڑا کرے گا [18] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فرش بنایا [19] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ رستوں میں چلو پھرو [20]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 11، 12، 13، 14، 15، 16، 17، 18، 19، 20،

استغفار اور باران رحمت ٭٭

نوح علیہ السلام فرماتے ہیں اے میری قوم کے لوگو تم اگر استغفار کرو گے تو بارش کے ساتھ ہی ساتھ رزق کی برکت بھی تمہیں ملے گی، زمین و آسمان کی برکتوں سے تم مالا مال ہو جاؤ گے، کھیتیاں خوب ہوں گی، جانوروں کے تھن دودھ سے پر رہیں گے، مال و اولاد میں ترقی ہو گی، قسم قسم کے پھلوں سے لدے پھندے باغات تمہیں نصیب ہوں گے، جن کے درمیان چاروں طرف اور بابرکت پانی کی ریل پیل ہو گی، ہر طرف نہریں اور دریا جاری ہو جائیں گے۔

اس طرح رغبت دلا کر پھر ذرا خوف زدہ بھی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں تم اللہ کی عظمت کے قائل کیوں نہیں ہوتے؟ اس کے عذاب سے بےباک کیوں ہو گئے ہو؟ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے تمہیں کن کن حالات میں کس کس طرح حالت بدل بدل کر ساتھ پیدا کیا ہے؟ پہلے پانی کی بوند، پھر جامد خون، پھر گوشت کا لوتھڑا، پھر اور صورت، پھر اور حالت وغیرہ۔ اسی طرح دیکھو تو سہی کہ اس نے ایک پر ایک اس طرح آسمان پیدا کئے خواہ وہ صرف سننے سے ہی معلوم ہوئے ہوں یا ان وجوہ سے معلوم ہوئے ہوں جو محسوس ہیں جو ستاروں کی چال اور ان کے کسوف سے سمجھی جا سکتی ہیں، جیسے کہ اس علم والوں کا بیان ہے، گو اس میں بھی ان کا سخت تر اختلاف ہے کہ کواکب چلنے پھرنے والے بڑے بڑے سات ہیں۔ ایک ایک کو بے نور کر دیتا ہے، سب سے قریب آسمان دنیا میں چاند ہے جو دوسروں کو ماند کئے ہوئے ہے اور دوسرے آسمان پر عطارد ہے، تیسرے میں زہرہ ہے، چوتھے میں سورج ہے، پانچویں میں مریخ ہے، چھٹے میں مشتری، ساتویں میں زحل اور باقی کواکب جو ثوابت ہیں وہ آٹھویں میں ہیں جس کا نام یہ لوگ فلک ثوابت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو شرع والے ہیں وہ اسے کرسی کہتے ہیں اور نواں فلک ان کے نزدیک اطلس اور اثیر ہے جس کی حرکت ان کے خیال میں افلاک کی حرکت کے خلاف ہے اس لیے کہ دراصل اس کی حرکت اور حرکتوں کو مبداء ہے وہ مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتا ہے اور باقی سب آسمان مشرق سے مغرب کی طرف اور انہی کے ساتھ کواکب بھی گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ لیکن سیاروں کی حرکت افلاک کی حرکت کے بالکل برعکس ہے وہ سب مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتے ہیں اور ان میں کا ہر ایک اپنے آسمان کا پھیر اپنے مقدور کے مطابق کرتا ہے، چاند تو ہر ماہ میں ایک بار سورج ہر سال میں ایک بار زحل ہر تیس سال میں ایک مرتبہ۔ مدت کی یہ کمی بیشی با اعتبار آسمان کی لمبائی چوڑائی کے ہے ورنہ سب کی حرکت سرعت میں بالکل مناسبت رکھتی ہے۔
9857

یہ خلاصہ ہے ان کی تمام تر باتوں کا جس میں ان میں آپس میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے نہ ہم اسے یہاں وارد کرنا چاہتے ہیں نہ اس کی تحقیق و تفتیش سے اس وقت کوئی غرض ہے مقصود صرف اس قدر ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سات آسمان بنائے ہیں اور وہ اوپر تلے ہیں، پھر ان میں سورج چاند پیدا کیا ہے، دونوں کی چمک دمک اور روشنی اور اجالا الگ الگ ہے جس سے دن رات کی تمیز ہو جاتی ہے، پھر چاند کی مقررہ منزلیں اور بروج ہیں پھر اس کی روشنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بالکل چھپ جاتا ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اپنی پوری روشنی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے جس سے مہینے اور سال معلوم ہوتے ہیں۔

جیسے فرمان ہے «ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ۭ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ» [10-یونس:5] ‏‏‏‏ ” اللہ وہ ہے جس نے سورج، چاند خوب روشن چمکدار بنائے اور چاند کی منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تمہیں سال اور حساب معلوم ہو جائیں ان کی پیدائش حق کے ساتھ ہے، عالموں کے سامنے اللہ کی قدرت کے یہ نمونے الگ الگ موجود ہیں۔“
9858

انسان مٹی سے پیدا ہوا ٭٭

پھر فرمایا ” اللہ نے تمہیں زمین سے اگایا۔ “ اس مصدر نے مضمون کو بے حد لطیف کر دیا۔ پھر تمہیں مار ڈالنے کے بعد اسی میں لوٹائے گا، پھر قیامت کے دن اسی سے تمہیں نکالے گا، جیسے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارا فرش بنا دیا اور وہ ہلے جلے نہیں اس لیے اس پر مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے، اسی زمین کے کشادہ راستوں پر تم چلتے پھرتے ہو اسی پر رہتے سہتے ہو ادھر سے ادھر جاتے آتے ہو۔

غرض نوح علیہ السلام کی ہر ممکن کوشش یہ ہے کہ عظمت رب اور قدرت اللہ کے نمونے اپنی قوم کے سامنے رکھ کر انہیں سمجھا رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی برکتوں کے دینے والے ہر چیز کے پیدا کرنے والے عالی شان قدرت کے رکھنے والے رازق خالق اللہ کا کیا تم پر اتنا بھی حق نہیں کہ تم اسے پوجو اس کا لحاظ رکھو اور اس کے کہنے سے اس کے سچے نبی علیہ السلام کی راہ اختیار کرو، تمیں ضرور چاہیئے کہ صرف اسی کی عبادت کرو کسی اور کو نہ پوجو، اس جیسا اس کا شریک، اس کا ساجھی، اس کا مثیل کسی کو نہ جانو، اسے بیوی اور ماں سے، بیٹوں پوتوں، وزیر و مشیر سے، عدیل و نظیر سے پاک مانو اسی کو بلند و بالا اسی کو عظیم و اعلیٰ جانو۔
9859



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.