تفسير ابن كثير



سورۃ الجن

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى آمَنَّا بِهِ فَمَنْ يُؤْمِنْ بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا[13] وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا[14] وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا[15] وَأَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُمْ مَاءً غَدَقًا[16] لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا[17]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت سن لی، ہم اس پر ایمان لے آئے، پھر جو کوئی اپنے رب پر ایمان لائے گا تو وہ نہ کسی نقصان سے ڈرے گا نہ کسی زیادتی سے۔ [13] اور یہ کہ ہم میں سے کچھ فرماںبردار ہیں اور ہم میں سے کچھ ظالم ہیں، پھر جو فرماں بردار ہوگیا تو وہی ہیں جنھوں نے سیدھے راستے کا قصد کیا۔ [14] اور جو ظالم ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ [15] اور (یہ وحی کی گئی ہے) کہ اگر وہ راستے پر سیدھے رہتے تو ہم انھیں ضرور بہت وافر پانی پلاتے۔ [16] تاکہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں اور جو کوئی اپنے رب کی یاد سے منہ موڑے گا وہ اسے سخت عذاب میں داخل کرے گا۔ [17]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان ﻻئے چکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان ﻻئے گا اسے نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہے نہ ﻇلم وستم کا [13] ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بےانصاف ہیں پس جو فرماں بردار ہوگئے انہوں نے تو راه راست کا قصد کیا [14] اور جو ﻇالم ہیں وه جہنم کا ایندھن بن گئے [15] اور (اے نبی یہ بھی کہہ دو) کہ اگر لوگ راه راست پر سیدھے رہتے تو یقیناً ہم انہیں بہت وافر پانی پلاتے [16] تاکہ ہم اس میں انہیں آزمالیں، اور جو شخص اپنے پروردگار کے ذکر سے منھ پھیر لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب میں مبتلا کردے گا [17]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب ہم نے ہدایت (کی کتاب) سنی اس پر ایمان لے آئے۔ تو جو شخص اپنے پروردگار پر ایمان لاتا ہے اس کو نہ نقصان کا خوف ہے نہ ظلم کا [13] اور یہ کہ ہم میں بعض فرمانبردار ہیں اور بعض (نافرمان) گنہگار ہیں۔ تو جو فرمانبردار ہوئے وہ سیدھے رستے پر چلے [14] اور جو گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے [15] اور (اے پیغمبر) یہ (بھی ان سے کہہ دو) کہ اگر یہ لوگ سیدھے رستے پر رہتے تو ہم ان کے پینے کو بہت سا پانی دیتے [16] تاکہ اس سے ان کی آزمائش کریں۔ اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیرے گا وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا [17]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 13، 14، 15، 16، 17،

باب

پھر کہتے ہیں مومن کے نہ تو عمل نیک ضائع ہوں، نہ اس پر خواہ مخواہ کی برائیاں لا دی جائیں، جیسے اور جگہ ہے «فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا هَضْمًا» [20-طه:112] ‏‏‏‏ یعنی ” نیک مومن کو ظلم و نقصان کا ڈر نہیں “۔

پھر کہتے ہیں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض حق سے ہٹے ہوئے عدل کو چھوڑے ہوئے ہیں۔ مسلمان تو نجات کے متلاشی ہیں اور ظالم جہنم کی لکڑیاں ہیں۔

اس کے بعد کی آیت «‏‏‏‏وَّاَنْ لَّوِ اسْتَــقَامُوْا عَلَي الطَّرِيْقَةِ لَاَسْقَيْنٰهُمْ مَّاءً غَدَقًا» ‏‏‏‏ [72- الجن:16] ‏‏‏‏، کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر تمام لوگ اسلام پر اور راہ راست پر اور اطاعت الٰہی پر جم جاتے تو ہم ان پر بکثرت بارشیں برساتے اور خوب وسعت سے روزی دیتے۔

جیسے اور جگہ ہے «وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُوْنَ» [5-المائدة:66] ‏‏‏‏ یعنی ” اگر یہ توراۃ وانجیل اور آسمانی کتابوں پر سیدھے اترتے تو انہیں آسمان و زمین سے روزیاں ملتیں “۔

اور فرمان ہے «‏‏‏‏وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ» [7-الأعراف:96] ‏‏‏‏، یعنی ” اگر بستی والے ایمان لاتے متقی بن جاتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے یہ اس لیے کہ ان کی پختہ جانچ ہو جائے کہ ہدایت پر کون جما رہتا ہے اور کون پھر سے گمراہی کی طرف لوٹ جاتا ہے “۔

مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں اتری ہے جبکہ ان پر سات سال کا قحط پڑا تھا، دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ سب کے سب گمراہی پر جم جاتے تو ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے جاتے تاکہ یہ خوب مست ہو جائیں اور اللہ کو بالکل بھول جائیں اور بدترین سزاؤں کے قابل ہو جائیں۔

جیسے فرمان باری ہے «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ» [6-الأنعام:44] ‏‏‏‏، یعنی ” جب وہ نصیحتیں بھلا بیٹھے تو ہم نے بھی ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے جس وہ مست بن گئے کہ ناگہاں ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ مایوس ہو گئے “۔

اسی طرح کی آیت «‏‏‏‏اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَل لَّا يَشْعُرُونَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَل لَّا يَشْعُرُونَ» [23-المؤمنون:56-55] ‏‏‏‏، بھی ہے۔

پھر فرماتا ہے ” جو بھی اپنے رب کے ذکر سے بے پرواہی برتے اس کا رب اسے درد ناک سخت اور مہلک عذابوں میں مبتلا کرتا ہے “۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صَعَدًا» جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ہے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں جہنم کے ایک کنوئیں کا نام ہے۔
9898



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.