تفسير ابن كثير



سورۃ الجن

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا[18] وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا[19] قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا[20] قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا[21] قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا[22] إِلَّا بَلَاغًا مِنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا[23] حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا[24]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔ [18] اور یہ کہ بات یہ ہے کہ جب اللہ کا بندہ کھڑا ہوا، اسے پکارتا تھا تو وہ قریب تھے کہ اس پر تہ بہ تہ جمع ہو جائیں۔ [19] کہہ دے میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ [20] کہہ دے بلاشبہ میں تمھارے لیے نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا۔ [21] کہہ دے یقینا میں، مجھے اللہ سے کوئی بھی کبھی پناہ نہیں دے گا اور میں اس کے سوا کبھی پناہ کی کوئی جگہ نہیں پاؤں گا۔ [22] مگر (میں تو صرف) اللہ کے احکام پہنچانے اور اس کے پیغامات کا (اختیار رکھتا ہوں) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو یقینا اسی کے لیے جہنم کی آگ ہے، ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ [23] (یہ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب وہ چیز دیکھ لیں گے جس کاان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو ضرور جان لیں گے کہ کون ہے جو مدد گار کے اعتبار سے زیادہ کمزور ہے اور جو تعداد میں زیادہ کم ہے؟ [24]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو [18] اور جب اللہ کا بنده اس کی عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وه بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں [19] آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا [20] کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان نفع کا اختیار نہیں [21] کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناه بھی پا نہیں سکتا [22] البتہ (میرا کام) اللہ کی بات اور اس کے پیغامات (لوگوں کو) پہنچا دینا ہے، (اب) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے [23] (ان کی آنکھ نہ کھلے گی) یہاں تک کہ اسے دیکھ لیں جس کا ان کو وعده دیا جاتا ہے پس عنقریب جان لیں گے کہ کس کا مددگار کمزور اور کس کی جماعت کم ہے [24]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور یہ کہ مسجدیں (خاص) خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو [18] اور جب خدا کے بندے (محمدﷺ) اس کی عبادت کو کھڑے ہوئے تو کافر ان کے گرد ہجوم کرلینے کو تھے [19] کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار ہی کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا [20] (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا [21] (یہ بھی) کہہ دو کہ خدا (کے عذاب) سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں دیکھتا [22] ہاں خدا کی طرف سے احکام کا اور اس کے پیغاموں کا پہنچا دینا (ہی) میرے ذمے ہے۔ اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرے گا تو ایسوں کے لئے جہنم کی آگ ہے ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے [23] یہاں تک کہ جب یہ لوگ وہ (دن) دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تب ان کو معلوم ہو جائے گا کہ مددگار کس کے کمزور اور شمار کن کا تھوڑا ہے [24]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 18، 19، 20، 21، 22، 23، 24،

آداب سجدہ اور جنات کا اسلام لانا ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ” اس کی عبادت کی جگہوں کو شرک سے پاک رکھیں، وہاں کسی دوسرے کا نام نہ پکاریں، نہ کسی اور کو اللہ کی عبادت میں شریک کریں “۔

قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اپنے گرجوں اور کنیسوں میں جا کر اللہ کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کرتے تھے تو اس امت کو حکم ہو رہا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور امت بھی سب توحید والے رہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت کے نزول کے وقت صرف مسجد الاقصیٰ تھی اور مسجد الحرام۔

اعمش رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر یہ بیان بھی کی ہے کہ جنات نے حضور علیہ السلام سے اجازت چاہی کہ آپ کی مسجد میں اور انسانوں کے ساتھ نماز ادا کریں، گویا ان سے کہا جا رہا ہے کہ نماز پڑھو لیکن انسانوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو۔

سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جنوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تو دور دراز رہتے ہیں نمازوں میں آپ کی مسجد میں کیسے پہنچ سکیں گے؟ تو انہیں کہا جاتا ہے کہ مقصود نماز کا ادا کرنا اور صرف اللہ ہی کی عبادت بجا لانا ہے خواہ کہیں ہو۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری: 35128:مرسل] ‏‏‏‏

عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت عام ہے اس میں سبھی مساجد شامل ہیں۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اعضاء سجدہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی جن اعضاء پر تم سجدہ کرتے ہو وہ سب اللہ ہی کے ہیں پس تم پر ان اعضاء سے دوسرے کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے۔
9903

صحیح حدیث میں ہے کہ مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم کیا گیا ہے، پیشانی اور ہاتھ کے اشارے سے ناک کو بھی اس میں شامل کر لیا اور دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پانچے ۔ [صحیح بخاری:812] ‏‏‏‏

آیت «‏‏‏‏لَمَّا قَامَ» کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جنات نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تلاوت قرآن سنی تو اس طرح آگے بڑھ بڑھ کر عقیدت کا اظہار کرنے لگے کہ گویا ایک دوسرے کے سروں پر چڑھے چلے جاتے ہیں۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ جنات اپنی قوم سے کہہ رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی اطاعت و چاہت کی حالت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو کھڑے ہوتے ہیں اور اصحاب اصحاب پیچھے ہوتے ہیں تو برابر اطاعت و اقتداء میں آخر تک مشغول رہتے ہیں گویا ایک حلقہ ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کا اعلان لوگوں میں کرتے ہیں تو کافر لوگ دانت چبا چبا کر الجھ جاتے ہیں، جنات و انسان مل جاتے ہیں کہ اس امر دین کو مٹا دیں اور اس کی روشنی کو چھپا لیں مگر اللہ کا ارادہ اس کے خلاف ہو چکا ہے۔
9904

میں تو کسی کے نفع نقصان کا مالک نہیں ٭٭

یہ تیسرا قول ہی زیادہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد ہے کہ ” میں تو صرف اپنے رب کا نام ورد زبان رکھتا ہوں اور کسی اور کی عبادت نہیں کرتا “، یعنی جب دعوت حق اور توحید کی آواز ان کے کان میں پڑی جو مدتوں سے غیر مانوس ہو چکی تھی تو ان کفار نے ایذاء رسانی مخالفت اور تکذیب پر کمر باندھ لی حق کو مٹا دینا چاہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر سب متحد ہو گئے اس وقت ان سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تو اپنے پالنے والے «‏‏‏‏وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ» کی عبادت میں مشغول ہوں میں اسی کی پناہ میں ہوں اسی پر میرا توکل ہے وہ ہی میرا سہارا ہے مجھ سے یہ توقع ہرگز نہ رکھو کہ میں کسی اور کے سامنے جھکوں یا اس کی پرستش کروں، میں تم جیسا انسان ہوں، تمہارے نفع نقصان کا مالک میں نہیں ہوں، میں تو اللہ کا ایک غلام ہوں اللہ کے بندوں میں سے ایک ہوں، تمہاری ہدایت ضلالت کا مختار و مالک میں نہیں، سب چیزیں اللہ کے قبضے میں ہیں، میں تو صرف پیغام رساں ہوں، اگر میں خود بھی اللہ کی معصیت کروں تو یقیناً اللہ مجھے عذاب دے گا اور کسی سے نہ ہو سکے گا کہ مجھے بچا لے، مجھے کوئی پناہ کی جگہ اس کے سوا نظر ہی نہیں آتی، میری حیثیت صرف مبلغ اور رسول کی ہے۔

بعض تو کہتے ہیں «الا» کا استثنا «لَا أَمْلِكُ» سے ہے یعنی میں نفع نقصان ہدایت ضلالت کا مالک نہیں میں تو صرف تبلیغ کرنے والا پیغام پہنچانے والا ہوں اور ہو سکتا ہے کہ «لَن يُجِيرَنِي» سے یہ استثناء ہو یعنی اللہ کے عذابوں سے مجھے صرف میری رسالت کی ادائیگی ہی بچا سکتی ہے۔

جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ» [5-المائدة:67] ‏‏‏‏، یعنی ” اے رسول تیری طرف جو تیرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے پہنچا دے اور اگر تو نے یہ نہ کیا تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں سے بچا لے گا۔ نافرمانوں کے لیے ہمیشہ والی جہنم کی آگ ہے جس میں سے نہ نکل سکیں نہ بھاگ سکیں “۔

جب یہ مشرکین جن و انس قیامت والے دن ڈراؤنے عذابوں کو دیکھ لیں گے اس وقت ظاہر ہو جائے گا کہ کمزور مددگاروں اور بے وقعت گنتی والوں میں کون کون شامل تھا؟ یعنی مومن موحد یا یہ مشرک، حقیقت یہ ہے کہ اس دن مشرکوں کا برائے نام بھی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہو گا اور اللہ کے لشکروں کے مقابلہ پر ان کی گنتی بھی کچھ نہ ہو گی۔
9905



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.