تفسير ابن كثير



سورۃ المزمل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا[10] وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا[11] إِنَّ لَدَيْنَا أَنْكَالًا وَجَحِيمًا[12] وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا[13] يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَهِيلًا[14] إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا[15] فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا[16] فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا[17] السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[18]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں اور انھیں چھوڑ دے، خوبصورت طریقے سے چھوڑنا۔ [10] اور چھوڑ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو جو خوش حال ہیں اور انھیں تھوڑی سی مہلت دے۔ [11] بلاشبہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور سخت بھڑکتی ہوئی آگ۔ [12] اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور درد ناک عذاب۔ [13] جس دن زمین اور پہاڑ کانپیں گے اور پہاڑ گرائی ہوئی ریت کے ٹیلے ہو جائیں گے۔ [14] بلاشبہ ہم نے تمھاری طرف ایک پیغام پہنچانے والا بھیجا جو تم پر گواہی دینے والا ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک پیغام پہنچانے والا بھیجا۔ [15] سو فرعون نے اس پیغام پہنچانے والے کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے پکڑ لیا، نہایت سخت پکڑنا۔ [16] پھر تم کیسے بچو گے اگر تم نے کفر کیا، اس دن سے جو بچوں کو بوڑھے کر دے گا۔ [17] اس میں آسمان پھٹ جانے والا ہے، اس کا وعدہ ہمیشہ سے (پورا) ہو کر رہنے والا ہے۔ [18]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو کچھ وه کہیں تو سہتا ره اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ ره [10] اور مجھے اور ان جھٹلانے والے آسوده حال لوگوں کو چھوڑ دے اور انہیں ذرا سی مہلت دے [11] یقیناً ہمارے ہاں سخت بیڑیاں ہیں اور سلگتی ہوئی جہنم ہے [12] اور حلق میں اٹکنے واﻻ کھانا ہے اور درد دینے واﻻ عذاب ہے [13] جس دن زمین اور پہاڑ تھرتھرا جائیں گے اور پہاڑ مثل بھربھری ریت کے ٹیلوں کے ہوجائیں گے [14] بیشک ہم نے تمہاری طرف بھی تم پر گواہی دینے واﻻ رسول بھیج دیا ہے جیسے کہ ہم نے فرعون کے پاس رسول بھیجا تھا [15] تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سخت (وبال کی) پکڑ میں پکڑ لیا [16] تم اگر کافر رہے تو اس دن کیسے پناه پاؤ گے جو دن بچوں کو بوڑھا کردے گا [17] جس دن آسمان پھٹ جائے گا اللہ تعالیٰ کا یہ وعده ہو کر ہی رہنے واﻻ ہے [18]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو جو (دل آزار) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان کو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو [10] اور مجھے ان جھٹلانے والوں سے جو دولتمند ہیں سمجھ لینے دو اور ان کو تھوڑی سی مہلت دے دو [11] کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے [12] اور گلوگیر کھانا ہے اور درد دینے والا عذاب (بھی) ہے [13] جس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں اور پہاڑ ایسے بھر بھرے (گویا) ریت کے ٹیلے ہوجائیں [14] (اے اہل مکہ) جس طرح ہم نے فرعون کے پاس (موسیٰ کو) پیغمبر (بنا کر) بھیجا تھا (اسی طرح) تمہارے پاس بھی (محمدﷺ) رسول بھیجے ہیں جو تمہارے مقابلے میں گواہ ہوں گے [15] سو فرعون نے (ہمارے) پیغمبر کا کہا نہ مانا تو ہم نے اس کو بڑے وبال میں پکڑ لیا [16] اگر تم بھی (ان پیغمبروں کو) نہ مانو گے تو اس دن سے کیونکر بچو گے جو بچّوں کو بوڑھا کر دے گا [17] (اور) جس سے آسمان پھٹ جائے گا۔ یہ اس کا وعدہ (پورا) ہو کر رہے گا [18]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 10، 11، 12، 13، 14، 15، 16، 17، 18،

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی ٭٭

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ” ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے، میں خود ان سے نمٹ لوں گا۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بے فکر ہیں اور تجھے ستانے کے لیے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بے تعلق ہو جا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ “

«نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَىٰ عَذَابٍ غَلِيظٍ» ‏‏‏‏ [31-لقمان:24] ‏‏‏‏ ” تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے “، اور عذاب بھی کون سے؟ سخت قید و بند کے، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے، پھر وہ وقت بھی ہو گا جب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہو گا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہو گئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی۔
9939

اہل فرعون کی طرح نہ بنو ٭٭

پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لیے اپنے ایک رسول کو بھیجا تھا، اس نے جب اس رسول کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا۔ “

اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کر دیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور وبالوں سے بڑا ہے۔

اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ ” اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈر بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ “ اور دوسرے معنی یہ کہ ” اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا؟ “ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
9940

جنتیوں اور جہنمیوں کی نسبت ٭٭

طبرانی میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کرو، وہ پوچھیں گے اے اللہ! کتنی تعداد میں سے کتنے؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا: سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کر جاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخیوں کی یہ تعداد ہو جائے گی اور جنت تمہارے لیے اور تم جنت کے لیے ہو جاؤ گے۔ [طبرانی کبیر:12034:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے اور سورۃ الحج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گزر چکا ہے۔

اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لیے کہ یہاں ذکر ہی نہیں، اس دن کا وعدہ یقیناً سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔
9941



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.