تفسير ابن كثير



سورۃ المدثر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ[38] إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ[39] فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ[40] عَنِ الْمُجْرِمِينَ[41] مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ[42] قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ[43] وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ[44] وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ[45] وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ[46]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ہر شخص اس کے بدلے جو اس نے کمایا، گروی رکھا ہوا ہے۔ [38] مگر دائیں طرف والے۔ [39] جنتوں میں سوال کریں گے۔ [40] مجرموں سے۔ [41] تمھیں کس چیز نے سقر میں داخل کر دیا؟ [42] وہ کہیں گے ہم نماز ادا کرنے والوں میں نہیں تھے۔ [43] اور نہ ہم مسکین کو کھانا کھلاتے تھے۔ [44] اور ہم بے ہودہ بحث کرنے والوں کے ساتھ مل کر فضول بحث کیا کرتے تھے۔ [45] اور ہم جزا کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے۔ [46]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے [38] مگر دائیں ہاتھ والے [39] کہ وه بہشتوں میں (بیٹھے ہوئے) گناه گاروں سے [40] سوال کرتے ہوں گے [41] تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈاﻻ [42] وه جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے [43] نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے [44] اور ہم بحﺚ کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحﺚ مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے [45] اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے [46]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گرو ہے [38] مگر داہنی طرف والے (نیک لوگ) [39] (کہ) وہ باغہائے بہشت میں (ہوں گے اور) پوچھتے ہوں گے [40] (یعنی آگ میں جلنے والے) گنہگاروں سے [41] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ [42] وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے [43] اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے [44] اور اہل باطل کے ساتھ مل کر (حق سے) انکار کرتے تھے [45] اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے [46]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 38، 39، 40، 41، 42، 43، 44، 45، 46،

جنتیوں اور دوزخیوں میں گفتگو ہو گی ٭٭

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ” ہر شخص اپنے اعمال میں قیامت کے دن جکڑا بندھا ہو گا لیکن جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ آیا وہ جنت کے بالا خانوں میں چین سے بیٹھے ہوئے جہنمیوں کو بدترین عذابوں میں دیکھ کر ان سے پوچھیں گے کہ تم یہاں کیسے پہنچ گئے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نے نہ تو رب کی عبادت کی نہ مخلوق کے ساتھ احسان کیا بغیر علم کے جو زبان پر آیا بکتے رہے جہاں کسی کو اعتراض کرتے سنا ہم بھی ساتھ ہو گئے اور باتیں بنانے لگ گئے اور قیامت کے دن کی تکذیب ہی کرتے رہے یہاں تک کہ موت آ گئی “۔

«یقین» کے معنی موت کے اس آیت میں بھی ہیں «‏‏‏‏وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ» [15-الحجر:99] ‏‏‏‏ یعنی ” موت کے وقت تک اللہ کی عبادت میں لگا رہ “ اور سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کی نسبت حدیث میں بھی یقین کا لفظ آیا ہے۔ ‏‏‏‏ [صحیح بخاری:3929] ‏‏‏‏
10011



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.