تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا[64] فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا[65]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگریہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش مانگتا تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔ [64] پس نہیں! تیرے رب کی قسم ہے! وہ مومن نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ تجھے اس میں فیصلہ کرنے والا مان لیں جو ان کے درمیان جھگڑا پڑ جائے، پھر اپنے دلوں میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ کریں جو تو فیصلہ کرے اور تسلیم کرلیں، پوری طرح تسلیم کرنا۔ [65]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اسی لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ﻇلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے، تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے واﻻ مہربان پاتے [64] سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں [65]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول (خدا) بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے تو خدا کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے [64] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے [65]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 64، 65،

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ضامن نجات ہے ٭٭

مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «باذن اللہ» سے یہ مراد ہے کہ اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے، جیسے اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ» [3-آل عمران:152] ‏‏‏‏ یہاں بھی «اذن» سے مراد امر قدرت اور مشیت ہے یعنی اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا۔
1791

پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطا کاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیئے اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہیئے کہ آپ ہمارے لیے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔

ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا السلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھے «‏‏‏‏باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ» «‏‏‏‏فطاب من طیبھن القاع والا کم» «‏‏‏‏نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ» «‏‏‏‏فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم»
1792

جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں، اے ان تمام میں سے بہترین ہستی، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے۔

پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوشخبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے (‏‏‏‏یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے) بلکہ آیت کا یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ «جَاءُوكَ» کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ” ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے “ [صحیح مسلم:1631] ‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ» (‏‏‏‏مترجم)
1793

پھر اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزمان افضل تر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے ہر حکم ہر فیصلے ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ بنا دے۔ غرض جو بھی ظاہر باطن چھوٹے بڑے کل امور میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل اصول سمجھے وہی مومن ہے۔

پس فرمان ہے کہ تیرے احکام کو یہ کشادہ دلی سے تسلیم کر لیا کریں اپنے دل میں پسندیدگی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے ساتھ رہے، نہ تو احادیث کے ماننے سے رکیں نہ انہیں ہٹانے کے اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے تسلیم کرنے میں جھگڑیں جیسے فرمان رسول ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں ۔ [فتح الباری:289/13،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏
1794

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا کسی شخص سے نالیوں سے باغ میں پانی لینے کے بارے میں جھگڑا ہو پڑا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زبیر (‏‏‏‏رضی اللہ عنہ) تم پانی پلا لو اس کے بعد پانی کو انصاری کے باغ میں جانے دو اس پر انصاری نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا ہے فرمایا زبیر (‏‏‏‏رضی اللہ عنہ) تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو۔

پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہو جائے لیکن جب انصاری نے اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے یہ «‏‏‏‏فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ» ‏‏‏‏ [4-النساء:65] ‏‏‏‏ اسی بارے میں نازل ہوئی ہے،

مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ یہ انصاری رضی اللہ عنہ بدری تھے [صحیح بخاری:2708] ‏‏‏‏ اور روایت میں ہے دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے پہلے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے تھے کہ پانی روکو مت یونہی پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے۔ [صحیح بخاری:2359] ‏‏‏‏
1795

ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ دونوں دعویدار سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ تھے آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے اونچے والا پانی پلا لے پھر نیچے والا۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5559/3:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے آپ نے فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیجئیے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے سارا ہی واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کہہ سنایا۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کر دیتا ہوں تھوڑی دیر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تلوار تانے آ گئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیجئیے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بری کر دیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہو جائے اس لیے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری «وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ» [4-النساء:66] ‏‏‏‏ جو آگے آتی ہے۔ (‏‏‏‏ابن ابی حاتم) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
1796

دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے؟ کہا یہ کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا۔ [مسند الفاروق:575/2:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏تفسیر حافظ ابواسحاق)
1797



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.