تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا[66] وَإِذًا لَآتَيْنَاهُمْ مِنْ لَدُنَّا أَجْرًا عَظِيمًا[67] وَلَهَدَيْنَاهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا[68] وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا[69] ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا[70]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اگر ہم ان پر فرض کر دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو، یا اپنے گھروں سے نکل جائو تو وہ ایسا نہ کرتے مگر ان میں سے تھوڑے اور اگر وہ واقعی اس پر عمل کرتے جو انھیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لیے بہتر اور زیادہ ثابت قدم رکھنے والا ہوتا۔ [66] اور اس وقت ہم یقینا انھیں اپنے پاس سے بہت بڑا اجر دیتے۔ [67] اور یقینا ہم انھیں سیدھے راستے پر چلاتے۔ [68] اور جو اللہ اور رسول کی فرماںبرداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔ [69] یہی اللہ کی طرف سے خاص فضل ہے اور اللہ کافی ہے سب کچھ جاننے والا۔ [70]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ بجا ﻻتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور بہت زیاده مضبوطی واﻻ ہے [66] اور تب تو انہیں ہم اپنے پاس سے بڑا ﺛواب دیں [67] اور یقیناً انہیں راه راست دکھا دیں [68] اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے، وه ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں [69] یہ فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کافی ہے اللہ تعالیٰ جاننے واﻻ ہے [70]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کر ڈالو یا اپنے گھر چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر یہ اس نصیحت پر کاربند ہوتے جو ان کو کی جاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر اور (دین میں) زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا [66] اور ہم ان کو اپنے ہاں سے اجر عظیم بھی عطا فرماتے [67] اور سیدھا رستہ بھی دکھاتے [68] اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے [69] یہ خدا کا فضل ہے اور خدا جاننے والا کافی ہے [70]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 66، 67، 68، 69، 70،

عادت جب فطرت ثانیہ بن جائے اور صاحب ایمان کو بشارت رفاقت ٭٭

اللہ خبر دیتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اگر انہیں ان منع کردہ کاموں کا بھی حکم دیا جاتا جنہیں وہ اس وقت کر رہے ہیں تو وہ ان کاموں کو بھی نہ کرتے اس لیے کہ ان کی ذلیل طبیعتیں حکم الہٰی کی مخالفت پر ہی استوار ہوئی ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی خبر دی ہے جو ظاہر نہیں ہوئی لیکن ہوتی تو کس طرح ہوتی؟ اس آیت کو سن کر ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتا تو یقیناً ہم کر گزرتے لیکن اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سے بچا لیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میری امت میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں ایمان پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط اور ثابت ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9926:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏ابن ابی حاتم)
1799

اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ کسی ایک صحابہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ایک یہودی نے سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے فخریہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر خود ہمارا قتل بھی فرض کیا تو بھی ہم کر گزریں گے اس پر سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ اگر ہم پر یہ فرض ہوتا تو ہم بھی کر گزرتے اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ حکم ہوتا تو اس کے بجا لانے والوں میں ایک سیدنا ابن ام عبد رضی اللہ عنہ بھی ہوتے ہیں [الدر المنثور للسیوطی:324/2:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏ابن ابی حاتم)

دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو پڑھ کر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ بھی اس پر عمل کرنے والوں میں سے ایک ہیں ۔ [الدر المنثور للسیوطی:324/2:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏
1800

ارشاد الٰہی ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے احکام بجا لاتے اور ہماری منع کردہ چیزوں اور کاموں سے رک جاتے تو یہ ان کے حق میں اس سے بہتر ہوتا کہ وہ حکم کی مخالفت کریں اور ممانعت میں مشغول ہوں۔ یہی عمل زیادہ سچائی والا ہوتا اسکے نتیجے میں ہم انہیں جنت عطا فرماتے اور دنیا اور آخرت کی بہتر راہ کی رہنمائی کرتے پھر فرماتا ہے جو شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں سے باز رہے اسے اللہ تعالیٰ عزت کے گھر میں لے جائے گا نبیوں کا رفیق بنائے گا اور صدیقوں کا جو مرتبے میں نبیوں کے بعد ہیں پھر شہیدوں کا پھر تمام مومنوں کا جنہیں صالح کہا جاتا ہے جن کا ظاہر باطن آراستہ ہے ان کا ہم جنس بنائے گا خیال تو کرو یہ کیسے پاکیزہ اور بہترین رفیق ہے

صحیح بخاری شریف میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ ہر نبی کو اس کے مرض الموت کے زمانے میں دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کا اختیار دیا جاتا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو شدت نقاہت سے اٹھ نہیں سکتے تھے آواز بیٹھ گئی تھی لیکن میں نے سنا کہ آپ فرما رہے ہیں ان کا ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبی ہیں، صدیق ہیں، شہید ہیں، اور نیکوکار ہیں۔ یہ سن کر مجھے معلوم ہو گیا کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [صحیح بخاری:4463] ‏‏‏‏ یہی مطلب ہے جو دوسری حدیث میں آپ کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ اے اللہ میں بلند و بالا رفیق کی رفاقت کا طالب ہوں یہ کلمہ آپ نے تین مرتبہ اپنی زبان مبارک سے نکالا پھر فوت ہو گئے۔ [صحیح بخاری:4463] ‏‏‏‏ علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم۔
1801

اس آیت کے شان نزول کا بیان ٭٭

ابن جریر میں ہے کہ ایک انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے دیکھا کہ سخت مغموم ہیں سبب دریافت کیا تو جواب ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تو صبح شام ہم لوگ آپ کی خدمت میں آبیٹھے ہیں دیدار بھی ہو جاتا ہے اور دو گھڑی صحبت بھی میسر ہو جاتی ہے لیکن کل قیامت کے دن تو آپ نبیوں کی اعلیٰ مجلس میں ہوں گے ہم تو آپ تک پہنچ بھی نہ سکیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیج کر انہیں یہ خوشخبری سنا دی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9929:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ یہی اثر مرسل سند سے بھی مروی ہے جو سند بہت ہی اچھی ہے۔
1802

سیدنا ربیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ آپ پر ایمان لانے والوں سے یقیناً بہت ہی بڑا ہے پس جب کہ جنت میں یہ سب جمع ہوں گے تو آپس میں ایک دوسرے کو کیسے دیکھیں گے اور کیسے ملیں گے؟ پس یہ آیت اتری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوپر کے درجہ والے نیچے والوں کے پاس اتر آئیں گے اور پربہار باغوں میں سب جمع ہوں گے اور اللہ کے احسانات کا ذکر اور اس کی تعریفیں کریں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے ناز و نعم سے ہر وقت رہیں گے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9933:ضعیف] ‏‏‏‏
1803

ابن مردویہ میں ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں آپ کو اپنی جان سے اپنے اہل عیال سے اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔ میں گھر میں ہوتا ہوں لیکن شوق زیارت مجھے بیقرار کر دیتا ہے صبر نہیں ہو سکتا دوڑتا بھاگتا آتا ہوں اور دیدار کر کے چلا جاتا ہوں لیکن جب مجھے آپ کی اور اپنی موت یاد آتی ہے اور اس کا یقین ہے کہ آپ جنت میں نبیوں کے سب سے بڑے اونچے درجے میں ہوں گے تو ڈر لگتا ہے کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے محروم ہو جاؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ آیت نازل ہوئی۔ [طبرانی کبیر:12559/12:حسن بالشواھد] ‏‏‏‏ اس روایت کے اور بھی طریقے ہیں۔ [طبرانی کبیر:12559:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏
1804

صحیح مسلم شریف میں ہے سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا اور پانی وغیرہ لا دیا کرتا تھا ایک بار آپ نے مجھ سے فرمایا کچھ مانگ لے میں نے کہا جنت میں میں آپ کی رفاقت کا طالب ہوں فرمایا اس کے سوا اور کچھ؟ میں نے کہا وہی کافی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری رفاقت کے لیے میری مدد کر بکثرت سجدے کرکے ۔ [صحیح مسلم:489] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں اللہ کے لا شریک ہونے کی اور آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوں اور رمضان کے روزے رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا جو مرتے دم تک اسی پر رہے گا وہ قیامت کے دن نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اس طرح ہو گا پھر آپ نے اپنی دو انگلیاں اٹھا کر اشارہ کر کے بتایا۔ لیکن یہ شرط ہے کہ ماں باپ کا نافرمان نہ ہو ۔ [مجمع الزوائد:146/8:ضعیف] ‏‏‏‏
1805

مسند احمد میں ہے ” جس نے اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھیں وہ ان شاءاللہ قیامت کے دن نبیوں کے صدیقوں شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ لکھا جائے گا۔ “ [مسند احمد:437/8،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ ترمذی میں ہے ” سچا امانت دار، تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔ “ [سنن ترمذي:1209،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

ان سب سے زیادہ زبردست بشارت اس حدیث میں ہے جو صحاح اور مسانید وغیرہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی ایک زبردست جماعت سے بہ تواتر مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن اس سے ملا نہیں تو آپ نے فرمایا (‏‏‏‏حدیث) «‏‏‏‏اَلمْـَرْءُ مَـعَ مَـنْ اَحَبَّ» ‏‏‏‏ ہر انسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا تھا سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسلمان جس قدر اس حدیث سے خوش ہوئے اتنا کسی اور چیز سے خوش نہیں ہوئے۔ [صحیح بخاری:3688] ‏‏‏‏
1806

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں واللہ میری محبت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہے تو مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے بھی انہی کے ساتھ اٹھائے گا گو میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ [صحیح بخاری:3688] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏یا اللہ تو ہمارے دل بھی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے چاہنے والوں کی محبت سے بھر دے اور ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ کر دے آمین)
1807

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتی لوگ اپنے سے بلند درجہ والے جنتیوں کو ان کے بالا خانوں میں اس طرح دیکھیں گے جیسے تم چمکتے ستارے کو مشرق یا مغرب میں دیکھتے ہو ان میں بہت کچھ فاصلہ ہو گا صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یہ منزلیں تو انبیاء کرام کے لیے ہی مخصوص ہوں گی؟ کوئی اور وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان منزلوں تک وہ بھی پہنچیں گے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو سچا جانا اور مانا۔ [صحیح بخاری:3256] ‏‏‏‏
1808

ایک حبشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے آپ فرماتے ہیں جو پوچھنا ہو پوچھو اور سمجھو وہ کہتا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو صورت میں رنگ میں نبوت میں اللہ عزوجل نے ہم پر فضیلت دے رکھی ہے اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لاؤں جس پر آپ ایمان لائے ہیں اور ان احکام کو بجا لاؤں جنہیں آپ بجا لا رہے ہیں تو کیا جنت میں آپ کا ساتھ ملے گا؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنتی حبشی تو ایسا گورا چٹا ہوکر جنت میں جائے گا کہ اسکا پنڈا ایک ہزار برس کے فاصلے ہی نورانیت کے ساتھ جگمگاتا ہوا نظر آئے گا۔
پھر فرمایا «لا الہ الا اللہ» کہنے والے سے اللہ کا وعدہ ہے اور «سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ» کہنے والے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں

اس پر ایک اور صاحب نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ حقائق ہیں تو پھر ہم کیسے ہلاک ہو سکتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ایک انسان قیامت کے دن اس قدر اعمال لے کر آئے گا اگر کسی پہاڑ پر رکھے جائیں تو وہ بھی بوجھل ہوئے لیکن ایک نعمت جو کھڑی ہوگئی محض اسکے شکریہ میں یہ اعمال کم نظر آئیں گے ہاں یہ اور بات ہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے اسے ڈھانک لے اور جنت دے دے

اور یہ آیتیں اتریں «هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا» سے «وَاِذَا رَاَيْتَ ثَمَّ رَاَيْتَ نَعِيْمًا وَّمُلْكًا كَبِيْرًا» تک۔ [76-الإنسان:1-20] ‏‏‏‏ تو حبشی صحابی رضی اللہ عنہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جنت میں جن جن چیزوں کو آپ کی آنکھیں دیکھیں گی میری آنکھیں بھی دیکھ سکیں گی؟ آپ نے فرمایا ہاں اس پر وہ حبشی فرط شوق میں روئے اور اس قدر روئے کہ اسی حالت میں فوت ہو گئے رضی اللہ عنہ وارضاہ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ان کی نعش مبارک کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں اتار رہے تھے [طبرانی کبیر:13595:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ روایت غریب ہے اور اس میں اصولی خامیاں بھی ہیں اس کی سند بھی صغیف ہے۔ ارشاد الٰہی ہے یہ خاص اللہ کی عنایت اور اس کا فضل ہے اس کی رحمت سے ہی یہ اس کے قابل ہوئے نہ کہ اپنے اعمال سے، اللہ خوب جاننے والا ہے اسے بخوبی معلوم ہے کہ مستحق ہدایت و توفیق کون ہے؟
1809



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.