تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا[79]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جو کوئی بھلائی تجھے پہنچے سو اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی تجھے پہنچے سو تیرے نفس کی طرف سے ہے اور ہم نے تجھے تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کافی گواہ ہے۔ [79]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] تجھے جو بھلائی ملتی ہے وه اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وه تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے، ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواه کافی ہے [79]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اے (آدم زاد) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال) کی وجہ سے ہے اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو لوگوں (کی ہدایت) کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) خدا ہی گواہ کافی ہے [79]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 79،

باب

اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہیں خوش حالی پھلواری اولاد و کھیتی ہاتھ لگے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر قحط سالی پڑے تنگ روزی ہو موت اور اولاد و مال کی کمی اور کھیت اور باغ کی کمی ہو تو جھٹ سے کہہ اٹھتے ہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا نتیجہ ہے، یہ فائدہ ہے مسلمان ہونے کا یہ پھل ہے صاحب ایمان بننے کا، فرعونی بھی اسی طرح برائیوں کو موسیٰ علیہ السلام اور مسلمانوں سے منسوب بدشگونی لیا کرتے تھے۔

جیسے کہ قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ایک آیت میں ہے «وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ» [22-الحج:11] ‏‏‏‏، یعنی ” بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے کھڑے رہ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں یعنی اگر بھلائی ملی تو باچھیں کھل جاتی ہیں اور اگر برائی پہنچے تو الٹے پیروں پلٹ جاتے ہیں۔ یہ ہیں جو دونوں جہان میں برباد ہوں گے “ پس یہاں بھی ان منافقوں کی جو بظاہر مسلمان ہیں اور دل کے کھوٹے ہیں برائی بیان ہو رہی ہے۔ کہ جہاں کچھ نقصان ہوا اور بہک گئے کہ اسلام لانے کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا۔

سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ «حَسَنَةٍ» سے مراد یہاں بارشوں کا ہونا، جانوروں میں زیادتی ہونا، بال بچے بہ کثرت ہونا، خوشحالی میسر آنا وغیرہ ہے اگر یہ ہوا تو کہتے کہ یہ سب من جانب اللہ ہے اور اگر اس کے خلاف ہوتا تو اس بے برکتی کا باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتے اور کہتے یہ سب تیری وجہ سے ہے یعنی ہم نے اپنے بڑوں کی راہ چھوڑ دی اور اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اختیار کی اس لیے اس مصیبت میں پھنس گئے اور اس بلا میں گرفتار ہوئے پس پروردگار ان کے ناپاک قول اور اس پلید عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، اس کی قضاء و قدر ہر بھلے برے فاسق فاجر نیک بد مومن کافر پر جاری ہے، بھلائی برائی سب اس کی طرف سے ہے

پھر ان کے اس قول کی جو محض شک و شبہ کم علمی بیوقوفی جہالت اور ظلم کی بنا پر ہے تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ بات سمجھنے کی قابلیت بھی ان سے جاتی رہی۔ ایک غریب حدیث جو «قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ» ‏‏‏‏ [4-النساء:78] ‏‏‏‏ کے متعلق ہے اسے بھی سنیے۔

بزار میں ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے کہ کچھ لوگوں کے ہمراہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر دونوں صاحب بیٹھ گئے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ بلند آواز میں گفتگو کیا ہو رہی تھی ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تو کہہ رہے تھے نیکیاں اور بھلائیاں اللہ کی طرف سے ہیں اور برائیاں اور بدیاں ہماری طرف سے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تم کیا کہہ رہے تھے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں کہہ رہا تھا کہ دونوں باتیں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہیں .

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی بحث اول اول جبرائیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام میں ہوئی تھی میکائیل علیہ السلام وہی کہتے تھے جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں اور جبرائیل علیہ السلام وہ کہہ رہے تھے جو یے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تم کہ رہے ہو۔ پس آسمان والوں میں جب اختلاف ہوا تو زمین والوں میں تو ہونا لازمی تھا۔ آخر اسرافیل علیہ السلام کی طرف فیصلہ گیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسنات اور سیات دونوں اللہ مختار کل کی طرف سے ہیں۔ پھر آپ نے دونوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میرا فیصلہ سنو اور یاد رکھو اگر اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کے عمل کو نہ چاہتا تو ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا۔
[بزار:2153:موضوع] ‏‏‏‏
1832

لیکن شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اور تمام ان محدثین کا جو حدیث کی پرکھ رکھتے ہیں اتفاق ہے کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے۔
1833

پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب فرماتے ہیں جس سے مراد عموم ہے یعنی سب سے ہی خطاب ہے کہ تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کا فضل لطف رحمت اور جو برائی پہنچتی ہے وہ خود تمہاری طرف سے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے، جیسے اور آیت میں ہے «وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ» [42-الشورى:30] ‏‏‏‏ یعنی ” جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے۔ وہ تمہارے بعض اعمال کی وجہ سے اور بھی تو اللہ تعالیٰ بہت سی بد اعمالیوں سے در گزر فرماتا رہتا ہے “ «مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ» [4-النساء:79] ‏‏‏‏ سے مراد بسبب گناہ ہے، یعنی شامت اعمال۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کا ذرا سا جسم کسی لکڑی سے جل جائے یا اس کا قدم پھسل جائے یا اسے ذرا سی محنت کرنی پڑے جس سے پسینہ آ جائے تو وہ بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہوتا ہے اور ابھی تو اللہ تعالیٰ جن گناہوں سے چشم پوشی فرماتا ہے جنہیں معاف کر دیتا ہے وہ بہت سارے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9975:مرسل و ضعیف] ‏‏‏‏ اس مرسل حدیث کا مضمون ایک متصل حدیث میں بھی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایماندار کو رنج یا جو بھی تکلیف و مشقت پہنچتی ہے یہاں تک کہ جو کانٹا بھی لگتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ [صحیح بخاری:5641] ‏‏‏‏
1834

ابوصالح رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو برائی تجھے پہنچتی ہے اس کا باعث تیرا گناہ ہے ہاں اسے مقدر کرنے والا اللہ تعالیٰ آپ ہے، مطرف بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں تم تقدیر کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ کیا تمہیں سورۃ نساء کی یہ آیت کافی نہیں، پھر اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی قسم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ نہیں دئیے گئے انہیں حکم دیئے گئے ہیں اور اسی کی طرف وہ لوٹتے ہیں یہ قول بہت قوی اور مضبوط ہے قدریہ اور جبریہ کی پوری تردید کرتا ہے، تفسیر اس بحث کا موضوع نہیں،

پھر فرماتا ہے کہ تیرا کام اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کی تبلیغ کرنا ہے اس کی رضا مندی اور ناراضگی کے کام کو اس کے احکام اور اس کی ممانعت کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے، اللہ کی گواہی کافی ہے کہ اس نے تجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا ہے، اسی طرح کی گواہی اس امر پر بھی کافی ہے کہ تو نے تبلیغ کردی تیرے ان کے درمیان جو ہو رہا ہے کہ اسے بھی وہ مشاہدہ کر رہا ہے یہ جس طرح کفار عناد اور تکبر تیرے ساتھ برتتے ہیں اسے بھی وہ دیکھ رہا ہے۔
1835



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.