تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا[95] دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا[96]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ایمان والوں میں سے بیٹھ رہنے والے، جو کسی تکلیف والے نہیں اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں، اللہ نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ [95] اپنی طرف سے بہت سے درجوں کی اور عظیم بخشش اور رحمت کی۔ اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ [96]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راه میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعده دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے [95] اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ اور رحم کرنے واﻻ ہے [96]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے خدا نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے [95] (یعنی) خدا کی طرف سے درجات میں اور بخشش میں اور رحمت میں اور خدا بڑا بخشنے والا (اور) مہربان ہے [96]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 95، 96،

مجاہد اور عوام میں فرق ٭٭

صحیح بخاری میں ہے کہ جب اس آیت کے ابتدائی الفاظ اترے کہ گھروں میں بیٹھ رہنے والے جہاد کرنے والے مومن برابر نہیں، تو آپ اسے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو بلوا کر لکھوا رہے تھے اس وقت سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا آئے اور کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو نابینا ہوں معذور ہوں اس پر الفاظ «غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ» نازل ہوئے [صحیح بخاری:4593] ‏‏‏‏ یعنی ” وہ بیٹھ رہنے والے جو بےعذر ہوں “ ان کا ذکر ہے۔

اور روایت میں ہے کہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ قلم دوات اور شانہ لے کر آئے تھے [صحیح بخاری:4594] ‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے کہ سیدنا ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد میں شامل ہوتا اس پر وہ آیت اتری اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی ران پر تھی ان پر اس قدر بوجھ پڑا قریب تھا کہ ران ٹوٹ جائے۔ [صحیح بخاری:2832] ‏‏‏‏

وہ حدیث میں ہے کہ جس وقت ان آیات کی وحی اتری اور اس کے بعد طمانیت آپ پر نازل ہوئی میں آپ کے پہلو میں تھا اللہ کی قسم مجھ پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کا ایسا بوجھ پڑا کہ میں نے اس سے زیادہ بوجھل چیز زندگی بھر کوئی اٹھائی پھر وحی ہٹ جانے کے بعد آپ نے «عَظِيمًا» تک آیت لکھوائی اور میں نے اسے شانے کی ہڈی پر لکھ لیا

اور حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ابھی تو سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے جو آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی، سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بعد میں اترے ہوئے الفاظ کو میں نے ان کی جگہ پر اپنی تحریر میں بعد میں بڑھایا ہے۔ [سنن ابوداود:2507،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
1881

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مراد بدر کی لڑائی میں جانے والے اور اس میں حاضر نہ ہونے والے ہیں . [صحیح بخاری:4595] ‏‏‏‏ غزوہ بدر کے موقعہ پر سیدنا عبداللہ بن حجش اور سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہما آکر حضور سے کہنے لگے ہم دونوں نابینا ہیں کیا ہمیں رخصت ہے؟ تو انہیں آیت قرآنی میں رخصت دی گئی

پس مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت و تندرستی والے ہوں۔ [سنن ترمذي:3032:صحیح] ‏‏‏‏ پس پہلے تو مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر مطلقاً فضیلت تھی لیکن اسی وحی میں جو الفاظ اترے اس نے ان لوگوں کو جنہیں مباح عذر ہوں عام بیٹھ رہنے والوں سے مستثنیٰ کر دیا جیسے اندھے لنگڑے لولے اور بیمار، یہ مجاہدین کے درجے میں ہیں۔
1882

پھر مجاہدین کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے وہ ان لوگوں پر بھی ہے جو بیوجہ جہاد میں شامل نہ ہوئے ہوں، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر گذری اور یہ ہونا بھی چاہیئے بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس جہاد کے لیے سفر کرو اور جس جنگل میں کوچ کرو وہ تمہارے ساتھ اجر میں یکساں ہیں صحابہ نے کہا باوجود یہ کہ وہ مدینے میں مقیم ہیں، آپ نے فرمایا اس لیے کہ انہیں عذر نے روک رکھا ہے [صحیح بخاری:2839] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ تم جو خرچ کرتے ہو اس کا ثواب بھی جو تمہیں ملتا ہے انہیں بھی ملتا ہے [سنن ابوداود:2508:صحیح] ‏‏‏‏ اسی مطلب کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں «‏‏‏‏یارا حلین الی البیت العتیق لقد» «سر تم جسو ماو سرنا نحن ارواحا» «انا اقمنا علی عذروعن قدر» «ومن اقام علی عذر فقدراحا» یعنی اے اللہ کے گھر کے حج کو جانے والو! اگر تم اپنے جسموں سمیت اس طرف چل رہے ہو لیکن ہم بھی اپنی روحانی روش سے اسی طرف لپکے جا رہے ہیں، سنو ہماری جسمانی کمزوری اور عذر نے ہمیں روک رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ عذر سے رک جانے والا کچھ جانے والے سے کم نہیں۔
1883

پھر فرمایا ہے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ جنت کا اور بہت بڑے اجر کا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے، پھر ارشاد ہے، مجاہدین کو غیر مجاہدین پر بڑی فضیلت ہے۔ پھر ان کے بلند درجات ان کے گناہوں کی معافی اور ان پر جو برکت و رحمت ہے اس کا بیان فرمایا اور اپنی عام بخشش اور عام رحم کی خبر دی۔

بخاری و مسلم میں ہے جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے راہ کے مجاہدین کے لیے تیار کیا ہے ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں [صحیح بخاری:2790] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے اسے جنت کا درجہ ملتا ہے ایک شخص نے پوچھا درجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ تمہارے یہاں کے گھروں کے بالا خانوں جتنا نہیں بلکہ دو درجوں میں سو سال کا فاصلہ ہے۔ [الدر المنثور:365/2:ضعیف و منقطع] ‏‏‏‏
1884



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.