تفسير ابن كثير



سورۃ الانشقاق

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ[21] بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُكَذِّبُونَ[22] وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُوعُونَ[23] فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ[24] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ[25]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے۔ [21] بلکہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا جھٹلاتے ہیں۔ [22] اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو کچھ وہ جمع کررہے ہیں ۔ [23] پس انھیں ایک دردناک عذاب کی خوش خبری دے دے۔ [24] مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، ان کے لیے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ [25]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جب ان کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجده نہیں کرتے [21] بلکہ جنہوں نے کفر کیا وه جھٹلا رہے ہیں [22] اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں رکھتے ہیں [23] انہیں المناک عذابوں کی خوشخبری سنا دو [24] ہاں ایمان والوں اور نیک اعمال والوں کو بے شمار اور نہ ختم ہونے واﻻ اجر ہے [25]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے [21] بلکہ کافر جھٹلاتے ہیں [22] اور خدا ان باتوں کو جو یہ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں خوب جانتا ہے [23] تو ان کو دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا دو [24] ہاں جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے بےانتہا اجر ہے [25]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24، 25،

باب

پھر فرمایا کہ ” انہیں کیا ہو گیا یہ کیوں نہیں ایمان لاتے؟ اور انہیں قرآن سن کر سجدے میں گر پڑنے سے کون سی چیز روکتی ہے، بلکہ یہ کفار تو الٹا جھٹلاتے ہیں اور حق کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی میں اور برائی میں پھنسے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں کو جنھیں یہ چھپا رہے ہیں بخوبی جانتا ہے، تم اے نبی انہیں خبر پہنچا دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب تیار کر رکھے ہیں۔ “

پھر فرمایا کہ ” ان عذابوں سے محفوط ہونے والے بہترین اجر کے مستحق ایماندار نیک کردار لوگ ہیں، انہیں پورا پورا بغیر کسی کمی کے حساب اور اجر ملے گا “، جیسے اور جگہ ہے «عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ» [11-ھود:108] ‏‏‏‏ یعنی ” یہ بے انتہا بخشش ہے “

بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بلا احسان لیکن یہ معنی ٹھیک نہیں ہر آن پر لحظہ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ عزوجل کے اہل جنت پر احسان و انعام ہوں گے بلکہ صرف اس کے احسان اور اس کے فعل و کرم کی بنا پر انہیں جنت نصیب ہوئی نہ کہ ان کے اعمال کی وجہ سے پس اس مالک کا تو ہمیشہ اور مدام والا احسان اپنی مخلوق پر ہے ہی، اس کی ذات پاک ہر طرح کی ہر وقت کی تعریفوں کے لائق ہمیشہ ہمیشہ ہے، اسی لیے اہل جنت پر اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد کا الہام اسی طرح کیا جائے جس طرح سانس بلا تکلیف اور بے تکلف بلکہ بے ارادہ چلتا رہتا ہے۔

قرآن فرماتا ہے «وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» [10-یونس:10] ‏‏‏‏ یعنی ” ان کا آخری قول یہی ہو گا کہ سب تعریف جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے ہی ہے۔ “

«الْحَمْدُ لِلَّـه» سورۃ الانشقاق کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ ہمیں توفیق خیر دے اور برائی سے بچائے، آمین۔
10456



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.