تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا[99] وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا[100]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو یہ لوگ، اللہ قریب ہے کہ انھیں معاف کر دے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد معاف کرنے والا، نہایت بخشنے والاہے۔ [99] اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں ہجرت کرے، وہ زمین میں پناہ کی بہت سی جگہ اور بڑی وسعت پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے موت پالے تو بے شک اس کا اجر اللہ پر ثابت ہوگیا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ [100]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر کرے، اللہ تعالیٰ درگزر کرنے واﻻ اور معاف فرمانے واﻻ ہے [99] جو کوئی اللہ کی راه میں وطن کو چھوڑے گا، وه زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ﺛابت ہو گیا، اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے [100]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] قریب ہے کہ خدا ایسوں کو معاف کردے اور خدا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے [99] اور جو شخص خدا کی راہ میں گھر بار چھوڑ جائے وہ زمین میں بہت سی جگہ اور کشائش پائے گا اور جو شخص خدا اور رسول کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آپکڑے تو اس کا ثواب خدا کے ذمے ہوچکا اور خدا بخشنے والا اور مہربان ہے [100]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 99، 100،

باب

ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے اور مشرکوں سے الگ ہونے کی ہدایات کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا ہراساں نہ ہو وہ جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسباب پناہ تیار کر دے گا اور وہ بہ آرام وہاں اقامت کر سکے گا «مراغم» کے ایک معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے بھی ہیں۔

مجاہد فرماتے ہیں وہ اپنے دکھ سے بچاؤ کی بہت سی صورتیں پالے گا، امن کے بہت سے اسباب اسے مل جائیں گے، دشمنوں کے شر سے بچ جائے گا اور وہ روزی بھی پائے گا گمراہی کی جگہ ہدایت اسے ملے گی اس کی فقیری تونگری سے بدل جائے۔

ارشاد ہوتا ہے جو شخص بہ نیت ہجرت اپنے گھر سے نکلا پھر ہجرت گاہ پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسے موت آ گئی اسے بھی ہجرت کا کامل ثواب مل گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہرشخص کے لیے وہ ہے جو اس نے نیت کی پس جس کی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ کی رضا مندی اور رسول کی خوشنودی کا باعث ہو گی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہو تو اسے اصل ہجرت کا ثواب نہ ملے گا بلکہ اس کی ہجرت اسی طرف سمجھی جائے گی۔ [صحیح بخاری:54] ‏‏‏‏ یہ حدیث عام ہے ہجرت وغیرہ تمام اعمال پر مشتمل ہے۔
1891

بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کے بارے میں ہے جس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر ایک عابد کو قتل کر کے سو پورے کئے پھر ایک عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا تیری توبہ کے اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تو اپنی بستی سے ہجرت کر کے فلاں شہر چلا جا جہاں اللہ کے عابد بندے رہتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہجرت کر کے اس طرف چلا راستہ میں ہی تھا جو موت آ گئی۔

رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اس کے بارے میں اختلاف ہوا بحث یہ تھی کہ یہ شخص توبہ کر کے ہجرت کر کے مگر چلا تو سہی یہ وہاں پہنچا تو نہیں پھر انہیں حکم کیا گیا کہ وہ اس طرف کی اور اس طرف کی زمین ناپیں جس بستی سے یہ شخص قریب ہو اس کے رہنے والوں میں اسے ملا دیا جائے پھر زمین کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بری بستی کی جانب سے دور ہو جا اور نیک بستی والوں کی طرف قریب ہو جا، جب زمین ناپی گئی تو توحید والوں کی بستی سے ایک بالشت برابر قریب نکلی اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے۔
[صحیح بخاری:3470] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے کہ موت کے وقت یہ اپنے سینے کے بل نیک لوگوں کی بستی کی طرف گھسیٹتا ہوا گیا۔ [صحیح مسلم:2766] ‏‏‏‏
1892

مسند احمد کی حدیث میں ہے ” جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے نکلا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تینوں انگلیوں یعنی کلمہ کی انگلی بیچ کی انگلی اور انگھوٹھے کو ملا کر کہا۔ پھر فرمایا کہاں ہیں مجاہد؟ پھر وہ اپنی سواری پر سے گر پڑا یا اسے کسی جانور نے کاٹ لیا یا اپنی موت مر گیا تو اس کا ہجرت کا ثواب اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا۔ “ راوی کہتے ہیں اپنی موت مرنے کے لیے جو کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیا واللہ میں نے اس کلمہ کو آپ سے پہلے کسی عربی کی زبانی نہیں سنا اور جو شخص غضب کی حالت میں قتل کیا گیا وہ جگہ کا مستحق ہو گیا۔ [مسند احمد:36/4:ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا خالد بن خرام رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے حبشہ کی طرف چلے لیکن راہ میں ہی انہیں ایک سانپ نے ڈس لیا اور اسی میں ان کی روح قبض ہو گئی ان کے بارے میں یہ آیت اتری۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں چونکہ ہجرت کر کے حبشہ پہنچ گیا اور مجھے ان کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بھی ہجرت کر کے آ رہے ہیں اور میں جانتا تھا کہ قبیلہ بنو اسد سے ان کے سوا اور کوئی ہجرت کر کے آنے کا نہیں اور کم و بیش جتنے مہاجر تھے ان کے ساتھ رشتے کنبے کے لوگ تھے لیکن میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں ان کا یعنی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا جو مجھے ان کی اس طرح کی اچانک شہادت کی خبر ملی تو مجھے بہت ہی رنج ہوا۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5888/3:حسن] ‏‏‏‏

یہ اثر بہت ہی غریب ہے، یہ بھی وجہ ہے کہ یہ قصہ مکے کا ہے اور آیت مدینے میں اتری ہے۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ راوی کا مقصود یہ ہو کہ آیت کا حکم عام ہے گو شان نزول یہ نہ ہو «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
1893

اور روایت میں ہے کہ سیدنا ضمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے لیکن آپ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں انتقال کر گئے ان کے بارے میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5889/3:] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ سیدنا سعد بن ابی ضمرہ رضی اللہ عنہ جن کو آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا جب وہ آیت «إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ» [4-النساء:98] ‏‏‏‏ سنتے ہیں تو کہتے ہیں میں مالدار ہوں اور چارہ کار بھی رکھتا ہوں مجھے ہجرت کرنی چاہیئے چنانچہ سامان سفر تیار کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل کھڑے ہوئے لیکن ابھی تنعیم میں ہی تھے جو موت آ گئی ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:5890/3:ضعیف] ‏‏‏‏

طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخض میری راہ میں غزوہ کرنے کے لیے نکلا صرف میرے وعدوں کو سچا جان کر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھ کر بس وہ اللہ کی ضمانت میں ہے یا تو وہ لشکر کے ساتھ فوت ہو کر جنت میں پہنچے گا یا اللہ کی ضمانت میں واپس لوٹے گا اجر و غنیمت اور فضل رب لے کر۔ اگر وہ اپنی موت مر جائے یا مار ڈالا جائے یا گھوڑے سے گر جائے یا اونٹ پر سے گر پڑے یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے یا اپنے بستر پر کسی طرح فوت ہو جائے وہ شہید ہے۔ “ [تفسیر ابن جریر الطبری:3418:ضعیف] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ وہ جنتی ہے۔ [سنن ابوداود:2499،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ بعض الفاظ ابوداؤد میں نہیں ہیں۔
1894

ابویعلیٰ میں ہے جو شخص حج کے لیے نکلا پھر مر گیا قیامت تک اس کے لیے حج کا ثواب لکھا جاتا ہے، جو عمرے کے لیے نکلا اور راستے میں فوت ہو گیا اس کے لیے قیامت تک عمرے کا اجر لکھا جاتا ہے۔ جو جہاد کے لیے نکلا اور فوت ہو گیا اس کے لیے قیامت تک کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ [مسند ابویعلیٰ:6357،قال الشيخ الألباني:صحیح لغیرہ] ‏‏‏‏ یہ حدیث بھی غریب ہے۔
1895



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.