تفسير ابن كثير



سورۃ الأعلى

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[14] وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى[15] بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا[16] وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى[17] إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَى[18] صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى[19]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک وہ کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا ۔ [14] اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا، پس نماز پڑھی ۔ [15] بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ [16] حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے ۔ [17] بے شک یہ بات یقینا پہلے صحیفوں میں ہے ۔ [18] ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ [19]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بیشک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا [14] اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا [15] لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو [16] اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے [17] یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں [18] (یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں [19]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بے شک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا [14] اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا [15] مگر تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو [16] حالانکہ آخرت بہت بہتر اور پائندہ تر ہے [17] یہ بات پہلے صحیفوں میں (مرقوم) ہے [18] (یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں [19]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 14، 15، 16، 17، 18، 19،

جس نے صلوٰۃ کو بروقت ادا کیا ٭٭

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کر لیا، احکام اسلام کی تابعداری کی، نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پا لی “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» ہونے کی گواہی دے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرے اور میری رسالت کو مان لے اور پانچوں وقت کی نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرے وہ نجات پا گیا ۔ [مسند بزار:2284،ضعیف] ‏‏‏‏
10529

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پانچ وقت کی نماز ہے۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ابوخلدہ رحمہ اللہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا، جب میں گیا تو مجھ سے کہا: کچھ کھا لیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، فرمایا: نہا چکے ہو؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا: زکوٰۃ فطر ادا کر چکے ہو؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا: بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت میں یہی مراد ہے۔

اہل مدینہ فطرہ سے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی لوگوں کو فطرہ ادا کرنے کا حکم کرتے پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے، ابوالاحواص رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرے اور کوئی سائل آ جائے تو اسے خیرات دے دے، پھر یہی آیت پڑھی۔

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے اپنے مال کو پاک کر لیا اور اپنے رب کو راضی کر لیا، پھر ارشاد ہے کہ تم دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے رہے ہو اور دراصل تمہاری مصلحت تمہارا نفع اخروی زندگی کو دنیوی زندگی پر ترجیح دینے میں ہے۔ دنیا ذلیل ہے، فانی ہے، آخرت شریف ہے، باقی ہے۔ کوئی عاقل ایسا نہیں کر سکتا کہ فانی کو باقی کی جگہ اختیار کر لے اور اس فانی کے انتظام میں پڑ کر اس باقی کے اہتمام کو چھوڑ دے۔

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں نہ ہو، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال وہاں نہ ہو۔ اسے جمع کرنے کے پیچھے وہ لگتے ہیں جو بیوقوف ہیں ۔ [مسند احمد:81/6،ضعیف] ‏‏‏‏
10530

ابن جریر میں ہے کہ عرفجہ ثقفی اس سورت کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس پڑھ رہے تھے جب یہ اس آیت پر پہنچے تو تلاوت چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے کہ سچ ہے ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی، لوگ خاموش رہے تو آپ نے پھر فرمایا کہ اس لیے کہ ہم دنیا کے گرویدہ ہو گئے کہ یہاں کی زینت کو، یہاں کی عورتوں کو، یہاں کے کھانے پینے کو، ہم نے دیکھ لیا آخرت نظروں سے اوجھل ہے اس لیے ہم نے اس سامنے والی کی طرف توجہ کی اور اس نظر نہ آنے والی سے آنکھیں پھیر لیں۔ یا تو یہ فرمان سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بطور تواضع کے ہے یا جنس انسان کی بابت فرماتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت رکھی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا، تم، اے لوگو! باقی رہنے والی کو فنا ہونے والی پر ترجیح دو ۔ [مسند احمد:412/4،حسن لغیرہ] ‏‏‏‏
10531

پھر فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سب بیان ان صحیفوں میں بھی تھا ۔ [مسند بزار:2285،ضعیف] ‏‏‏‏

نسائی میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مروی ہے اور جب آیت «وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ» [53-النجم:37] ‏‏‏‏ نازل ہوئی تو فرمایا کہ «أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ» [53-النجم:38] ‏‏‏‏ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے کو نہ اٹھانا ہے۔

سورۃ النجم میں ہے «أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ» * «وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ» * «أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ» * «وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ» * «وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ» * «ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ» * «وَأَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنْتَهَىٰ» * «وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَىٰ» * «وَأَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَأَحْيَا» [53-النجم:42-36] ‏‏‏‏ آخری مضمون تک کی تمام آیتیں یعنی یہ سب احکام اگلی کتابوں میں بھی تھے اسی طرح یہاں بھی مراد «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» کی یہ آیتیں ہیں۔

بعض نے پوری سورت کہی ہے بعض نے «قَدْ أَفْلَحَ» [87-الأعلى:14] ‏‏‏‏ سے «خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ» [87-الأعلى:17] ‏‏‏‏ تک کہا ہے زیادہ قوی بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

«الْحَمْدُ لِلَّـه» سورۃ سبح کی تفسیر ختم ہوئی۔ «وَلِلَّهِ الْحَمْد وَالْمِنَّة وَبِهِ التَّوْفِيق وَالْعِصْمَة»
10532



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.