تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا[108] هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَنْ يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْ مَنْ يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا[109]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہ لوگوں سے چھپائو کرتے ہیں اور اللہ سے چھپائو نہیں کرتے، حالانکہ وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا اور اللہ ہمیشہ اس کا جو وہ کرتے ہیں، احاطہ کرنے والا ہے۔ [108] سن لو! تمھی وہ لوگ ہو جنھوں نے ان کی طرف سے دنیا کی زندگی میں جھگڑا کیا، تو ان کی طرف سے اللہ سے قیامت کے دن کون جھگڑے گا، یا کون ان پر وکیل ہوگا؟ [109]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] وه لوگوں سے تو چھﭗ جاتے ہیں، (لیکن) اللہ تعالیٰ سے نہیں چھﭗ سکتے، وه راتوں کے وقت جب کہ اللہ کی ناپسندیده باتوں کے خفیہ مشورے کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے پاس ہوتا ہے، ان کے تمام اعمال کو وه گھیرے ہوئے ہے [108] ہاں تو یہ ہو تم لوگ کہ دنیا میں تم نے ان کی حمایت کی لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا؟ اور وه کون ہے جو ان کا وکیل بن کر کھڑا ہو سکے گا؟ [109]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] یہ لوگوں سے تو چھپتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپتے حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا ان کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور خدا ان کے (تمام) کاموں پر احاطہ کئے ہوئے ہے [108] بھلا تم لوگ دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے بحث کر لیتے ہو قیامت کو ان کی طرف سے خدا کے ساتھ کون جھگڑے گا اور کون ان کا وکیل بنے گا؟ [109]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 108، 109،

باب

یہ قصہ مطلول ترمذی کتاب التفسیر میں بزبانی قتادہ رحمہ اللہ اس طرح مروی ہے کہ ہمارے گھرانے کے بنوابیرق قبیلے کا ایک گھر تھا جس میں بشر، بشیر اور مبشر تھے، بشیر ایک منافق شخص تھا اشعار کو کسی اور کی طرف منسوب کر کے خوب مزے لے لے کر پڑھا کرتا تھا۔

اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاتنے تھے کہ یہی خبیث ان اشعار کا کہنے والا ہے، یہ لوگ جاہلیت کے زمانے سے ہی فاقہ مست چلے آتھے مدینے کے لوگوں کا اکثر کھانا جو اور کھجوریں تھیں، ہاں تونگر لوگ شام کے آئے ہوئے قافلے والوں سے میدہ خرید لیتے جسے وہ خود اپنے لیے مخصوص کر لیتے، باقی گھر والے عموماً جو اور کھجوریں ہی کھاتے۔

میرے چچا رفاعہ یزید نے بھی شام کے آئے ہوئے قافلے سے ایک بورا میدہ کا خریدا اور اپنے بالاخانے میں اسے محفوظ کر دیا جہاں ہتھیار زرہیں تلواریں وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں رات کو چوروں نے نیچے سے نقب لگا کر اناج بھی نکال لیا اور ہتھیار بھی چرالے گئے۔

صبح میرے چچا میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا، اب ہم تجسس کرنے لگے تو پتہ چلا کہ آج رات کو بنو ابیرق کے گھر میں آگ جل رہی تھی اور کچھ کھا پکار رہے تھے غالباً وہ تمہارے ہاں سے چوری کر گئے ہیں، اس سے پہلے جب اپنے گھرانے والوں سے پوچھ گچھ کر رہے تھے تو اس قبیلے کے لوگوں نے ہم سے کہا تھا کہ تمہارا چور سیدنا لبید بن سہل رضی اللہ عنہ ہے، ہم جانتے تھے کہ سیدنا لبید رضی اللہ عنہ کا یہ کام نہیں وہ ایک دیانتدار سچا مسلمان شخص تھا۔

سیدنا لبید رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر ملی تو وہ آپے سے باہر ہو گئے تلوار تانے بنوابیرق کے پاس آئے اور کہنے لگے یا تو تم میری چوری ثابت کر ورنہ میں تمہیں قتل کر دونگا ان لوگوں نے ان کی برات کی اور معافی چاہ لی وہ چلے گئے۔

ہم سب کے سب پوری تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ چوری بنوابیرق نے کی ہے، میرے چچا نے مجھے کہا کہ تم جا کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر تو دو، میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ آپ ہمیں ہمارے ہتھیار دلوا دیجئیے غلہ کی واپسی کی ضرورت نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اطمینان دلایا کہ اچھا میں اس کی تحقیق کروں گا۔
1929

یہ خبر جب بنوابیرق کو ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک آدمی آپ کے پاس بھیجا جن کا نام اسیر بن عمرو تھا انہوں نے آ کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو ظلم ہو رہا ہے، بنوابیرق تو صلاحیت اور اسلام والے لوگ ہیں انہیں قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا چور کہتے ہیں اور بغیر کسی ثوب اور دلیل کے چور کا بدنما الزام ان پر رکھتے ہیں وغیرہ۔

پھر جب میں خدمت نبوی میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا یہ تو تم بہت برا کرتے ہو کہ دیندار اور بھلے لوگوں کے ذمے چوری چپکاتے ہو جب کہ تمہارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں، میں چپ چاپ واپس چلا آیا اور دل میں سخت پشیمان اور پریشان تھا خیال آتا تھا کہ کاش کہ میں اس مال سے چپ چاپ دست بردار ہو جاتا اور آپ سے اس کا ذکر ہی نہ کرتا تو اچھا تھا۔

اتنے میں میرے چچا آئے اور مجھ سے پوچھا تم نے کیا کیا؟ میں نے سارا واقعہ ان سے بیان کیا جسے سن کر انہوں نے کہا «واَللهُ اْلمـُسـَتعَانُ» اللہ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں، ان کا جانا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی میں یہ آیتیں اتریں پس «خائنین» سے مراد بنو ابیرق ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم ہوا یہ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا، پھر ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ اگر یہ لوگ استفغار کریں تو اللہ انہیں بخش دے گا۔ [سنن ترمذي:3036،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏
1930

پھر فرمایا ناکردہ گناہ کے ذمہ گناہ تھوپنا بدترین جرم ہے، «أَجْرًا عَظِيمًا» تک یعنی انہوں نے جو سیدنا لبید رضی اللہ عنہ کی نسبت کہا کہ چور یہ ہیں جب یہ آیتیں اتریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوابیرق سے ہمارے ہتھیار دلوائے میں انہیں لے کر اپنے چچا کے پاس آیا یہ بیچارے بوڑھے تھے آنکھوں سے بھی کم نظر آتا تھا مجھ سے فرمانے لگے بیٹا جاؤ یہ سب ہتھیار اللہ کے نام خیرات کر دو، میں آج تک اپنے چچا کی نسبت قدرے بدگمان تھا کہ یہ دل سے اسلام میں پورے طور پر داخل نہیں ہوئے لیکن اس واقعہ نے بدگمانی میرے دل سے دور کر دی اور میں ان کے سچے اسلام کا قائل ہو گیا۔

بشیر یہ آیتیں سن کر مشرکین میں جا ملا اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے ہاں جا کر اپنا قیام کیا، اس کے بارے میں اس کے بعد کی آیتیں «‏‏‏‏وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ» [4-النساء:115] ‏‏‏‏ سے «ضَلَالًا بَعِيدًا» ‏‏‏‏ [4-النساء:116] ‏‏‏‏ تک نازل ہوئیں اور سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے اس کے اس فعل کی مذمت اور اس کی ہجو اپنے شعروں میں کی، ان اشعار کو سن کر ایک کی عورت کو بڑی غیرت آئی اور بشیر کا سب اسباب اپنے سر پر رکھ کر ابطح میدان میں پھینک آئی اور کہا تو کوئی بھلائی لے کر میرے پاس نہیں آیا بلکہ حسان کی ہجو کے اشعار لے کر آیا ہے میں تجھے اپنے ہاں نہیں ٹھہراؤں گی۔ یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مطول اور مختصر مروی ہے۔

ان منافقوں کی کم عقلی کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ جو اپنی سیاہ کاریوں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں بھلا ان سے کیا نتیجہ؟ اللہ تعالیٰ سے تو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے، پھر انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ تمہارے پوشیدہ راز بھی اللہ سے چھپ نہیں سکتے،۔
1931

پھر فرماتا ہے مانا کہ دنیوی حاکموں کے ہاں جو ظاہر داری پر فیصلے کرتے ہیں تم نے غلبہ حاصل کر لیا، لیکن قیامت کے دن اللہ کے سامنے جو ظاہر وباطن کا عالم ہے تم کیا کر سکو گے؟ وہاں کسے وکیل بنا کر پیش کرو گے جو تمہارے جھوٹے دعوے کی تائید کرے، مطلب یہ ہے کہ اس دن تمہاری کچھ نہیں چلے گی۔
1932



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.