تفسير ابن كثير



سورۃ النساء

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا[116] إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِنْ يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَرِيدًا[117] لَعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا[118] وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا[119] يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا[120] أُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيصًا[121] وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[122]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کے ساتھ شریک بنائے تو یقینا وہ بھٹک گیا، بہت دور بھٹکنا۔ [116] وہ اس کے سوا نہیں پکارتے مگر مؤنثوں کو اور نہیں پکارتے مگر سرکش شیطان کو۔ [117] جس پر اللہ نے لعنت کی اور جس نے کہا کہ میں ہر صورت تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ ضرور لوں گا۔ [118] اور یقینا میں انھیں ضرور گمراہ کروں گا اور یقینا میں انھیں ضرور آرزوئیں دلائوں گا اور یقینا میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو یقینا وہ ضرور چوپائوں کے کان کاٹیں گے اور یقینا میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو یقینا وہ ضرور اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت بدلیں گے اور جو کوئی شیطان کو اللہ کے سوا دوست بنائے تو یقینا اس نے خسارہ اٹھایا، واضح خسارہ۔ [119] وہ انھیں وعدے دیتا ہے اور انھیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انھیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔ [120] یہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے۔ [121] اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، عنقریب ہم انھیں ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہمیشہ۔ اللہ کا وعدہ ہے سچا اور اللہ سے زیادہ بات میں کون سچا ہے۔ [122]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک مقرر کیا جائے، ہاں شرک کے علاوه گناه جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے واﻻ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا [116] یہ تو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں اور دراصل یہ صرف سرکش شیطان کو پوجتے ہیں [117] جسے اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے بیڑا اٹھایا ہے کہ تیرے بندوں میں سے میں مقرر شده حصہ لے کر رہوں گا [118] اور انہیں راه سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دﻻتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کی کان چیر دیں، اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کرشیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وه صریح نقصان میں ڈوبے گا [119] وه ان سے زبانی وعدے کرتا رہے گا، اور سبز باغ دکھاتا رہے گا، (مگر یاد رکھو!) شیطان کے جو وعدے ان سے ہیں وه سراسر فریب کاریاں ہیں [120] یہ وه لوگ ہیں جن کی جگہ جہنم ہے، جہاں سے انہیں چھٹکارا نہ ملے گا [121] اور جو ایمان ﻻئیں اور بھلے کام کریں ہم انہیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے چشمے جاری ہیں، جہاں یہ ابداﻻباد رہیں گے، یہ ہے اللہ کا وعده جو سراسر سچا ہے اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ سے زیاده سچا ہو؟ [122]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] خدا اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے خدا کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا [116] یہ جو خدا کے سوا پرستش کرتے ہیں تو عورتوں کی اور پکارتے ہیں تو شیطان کی سرکش ہی کو [117] جس پر خدا نے لعنت کی ہے (جو خدا سے) کہنے لگا میں تیرے بندوں سے (غیر خدا کی نذر دلوا کر مال کا) ایک مقرر حصہ لے لیا کروں گا۔ [118] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا ہروں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں اور (یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ خدا کی بنائی ہوئی صورتوں کو بدلتے رہیں اور جس شخص نے خدا کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا اور وہ صریح نقصان میں پڑ گیا [119] وہ ان کو وعدے دیتا رہا اور امیدیں دلاتا ہے اور جو کچھ شیطان انہیں وعدے دیتا ہے جو دھوکا ہی دھوکا ہے [120] ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور وہ وہاں سے مخلصی نہیں پاسکیں گے [121] اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کو ہم بہشتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ ابدالآباد ان میں رہیں گے۔ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے [122]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 116، 117، 118، 119، 120، 121، 122،

مشرک کی پہچان اور ان کا انجام ٭٭

اس سورت کے شروع میں پہلی آیت کے متعلق ہم پوری تفسیر کر چکے ہیں اور وہیں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں بھی بیان کر دی ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے قرآن کی کوئی آیت مجھے اس آیت سے زیادہ محبوب نہیں [سنن ترمذي:3037،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

مشرکین سے دنیا اور آخرت کی بھلائی دور ہو جاتی ہے اور وہ راہ حق سے دور ہو جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور اپنے دونوں جہانوں کو برباد کر لیتے ہیں، یہ مشرکین عورتوں کے پرستار ہیں، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر صنم کے ساتھ ایک جننی عورت ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں «اِنَاثًا» سے مراد بت ہیں، یہ قول اور بھی مفسرین کا ہے۔

ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مشرک فرشتوں کو پوجتے تھے اور انہیں اللہ کی لڑکیاں مانتے تھے [تفسیر ابن جریر الطبری:209/9] ‏‏‏‏ اور کہتے تھے کہ ان کی عبادت سے- ہماری اصل غرض اللہ عزوجل کی نزدیکی حاصل کرنا ہے اور ان کی تصویریں عورتوں کی شکل پر بناتے تھے پھر حکم کرتے تھے اور تقلید کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ صورتیں فرشتوں کی ہیں جو اللہ کی لڑکیاں ہیں۔
1945

یہ تفسیر «اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى» [53-النجم:19] ‏‏‏‏ ” کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا “ کے مضمون سے خوب ملتی ہے جہاں ان کے بتوں کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ خوب انصاف ہے کہ لڑکے تو تمہارے اور لڑکیاں میری؟ اور آیت میں ہے «وَجَعَلُوا الْمَلٰۗىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ ۭ سَـتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْــَٔــلُوْنَ» [43-الزخرف:19] ‏‏‏‏ ” اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے [اس چیز کی] ‏‏‏‏ باز پرس کی جائے گی۔ “

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «اناث» مراد مردے ہیں، حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر بے روح چیز «اناث» ہے خواہ خشک لکڑی ہو خواہ پتھر ہو، لیکن یہ قول غریب ہے۔
1946

پھر ارشاد ہے کہ «أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ» [36-يس:60] ‏‏‏‏ ” اے بنی آدم کیا میں نے تم سے شیطان کی عبادت نہ کرنے کا وعدہ نہیں لیا تھا؟ “ اسی وجہ سے فرشتے قیامت کے دن صاف کہہ دینگے کہ ہماری عبادت کے دعوےدار دراصل شیطانی پوجا کے پھندے میں تھے، شیطان کو رب نے اپنی رحمت سے دورکر دیا ہے اور اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا ہے، اس نے بھی بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ اللہ کے بندوں کو معقول تعداد میں بہکائے۔

مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے کو جہنم میں اپنے ساتھ لے جائے گا، ایک بچ رہے گا جو جنت کا مستحق ہو گا، شیطان نے کہا ہے کہ میں انہیں حق سے بہکاؤں گا اور انہیں اُمید دلاتا رہوں گا یہ توبہ ترک کر بیٹھیں گے، خواہشوں کے پیچھے پڑ جائیں گے موت کو بھول بیٹھیں گے نفس پروری اور آخرت سے غافل ہو جائیں گے، جانوروں کے کان کاٹ کر یا سوراخ دار کر کے اللہ کے سوا دوسروں کے نام کرنے کی انہیں تلقین کروں گا، اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑنا سکھاؤں گا جیسے جانوروں کو خصی کرنا۔
1947

ایک حدیث میں اس سے بھی ممانعت آئی ہے شاید مراد اس سے نسل منقطع کرنے کی غرض سے ایسا کرنا ہے۔ ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چہرے پر گودنا گدوانا، جو صحیح مسلم کی حدیث میں ممنوع ہے [صحیح مسلم:2116] ‏‏‏‏ اور جس کے کرنے والے پر اللہ کی لعنت وارد ہوئی ہے۔ [صحیح مسلم:2117] ‏‏‏‏

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ ” گود نے والیوں اور گدوانے والیوں، پیشانی کے بال نوچنے والیوں اور نچوانے والیوں اور دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر جو حسن و خوبصورتی کے لیے اللہ کی بناوٹ کو بگاڑتی ہیں اللہ کی لعنت ہے “ میں ان پر لعنت کیوں نہ بھیجوں؟ جن پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے پھر آپ نے «وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ» [59-الحشر:7] ‏‏‏‏ پڑھی۔ [صحیح بخاری:5931] ‏‏‏‏

بعض اور مفسرین کرام سے مروی ہے کہ مراد اللہ کے دین کو بدل دینا ہے جیسے اور آیت میں ہے «فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ» [30-الروم:30] ‏‏‏‏ ” یعنی اپنا چہرہ قائم رکھ کر اللہ کے یکطرفہ دین کا رخ اختیار کرنا یہ اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر تمام انسانوں کو اس نے پیدا کیا ہے اللہ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں۔ “ اس سے پچھلے (‏‏‏‏آخری) جملے کو اگر امر کے معنی میں لیا جائے تو یہ تفسیر ٹھیک ہو جاتی ہے یعنی اللہ کی فطرف کو نہ بدلو لوگوں کو میں نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اسی پر رہنے دو۔
1948

بخاری و مسلم میں ہے ” ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ پھر اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں “ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ بےعیب ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان وغیرہ کاٹ دیتے ہیں اور اسے عیب دار کر دیتے ہیں [صحیح بخاری:4775] ‏‏‏‏

صحیح مسلم میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے ” میں نے اپنے بندوں کو یکسوئی والے دین پر پیدا کیا لیکن شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا پھر میں نے اپنے حلال کو ان پر حرام کر دیا۔“ [صحیح مسلم:2865] ‏‏‏‏ شیطان کو دوست بنانے والا اپنا نقصان کرنے والا ہے جس نقصان کی کبھی تلافی نہ ہو سکے۔ کیونکہ شیطان انہیں سبز باغ دکھاتا رہتا ہے غلط راہوں میں ان کی فلاح وبہود کا یقین دلاتا ہے دراصل وہ بڑا فریب اور صاف دھوکا ہوتا ہے۔

چنانچہ شیطان قیامت کے دن صاف کہے گا اللہ کے وعدے سچے تھے اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تم پر تھا ہی نہیں میری پکار کو سنتے ہی کیوں تم مست و بےعقل بن گئے؟ اب مجھے کیوں کوستے ہو؟ اپنے آپ کو برا کہو۔ شیطانی وعدوں کو صحیح جاننے والے اس کی دلائی ہوئی اُمیدوں کو پوری ہونے والی سمجھنے والے آخر جہنم واصل ہو نگے جہاں سے چھٹکارا محال ہو گا۔
1949

ان بدبختوں کے ذکر کے بعد اب نیک لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جو دل سے میرے ماننے والے ہیں اور جسم سے میری تابعداری کرنے والے ہیں میرے احکام پر عمل کرتے ہیں میری منع کردہ چیزوں سے باز رہتے ہیں میں انہیں اپنی نعمتیں دوں گا انہیں جنتوں میں لے جاؤں گا جن کی نہریں جہاں یہ چاہیں خودبخود بہنے لگیں جن میں زوال، کمی یا نقصان بھی نہیں ہے، اللہ کا یہ وعدہ اصل اور بالکل سچا ہے اور یقیناً ہونے والا ہے اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہو گی؟ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں نہ ہی کوئی اس کے سوا مربی ہے۔

” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے سب سے زیادہ سچی بات اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور تمام کاموں میں سب سے برا کام دین میں نئی بات نکالنا ہے اور ہر ایسی نئی بات کا نام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں ہے۔ “ [صحیح مسلم:867] ‏‏‏‏
1950



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.