تفسير ابن كثير



سورۃ الكافرون

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ[1] لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ[2] وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ[3] وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ[4] وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ[5] لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ[6]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے اے کافرو! [1] میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو ۔ [2] اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔ [3] اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی۔ [4] اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔ [5] تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے ۔ [6]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو! [1] نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو [2] نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں [3] اور نہ میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو [4] اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں [5] تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے [6]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اے پیغمبر ان منکران اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو! [1] جن (بتوں) کو تم پوچتے ہو ان کو میں نہیں پوجتا [2] اور جس (خدا) کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے [3] اور (میں پھر کہتا ہوں کہ) جن کی تم پرستش کرتے ہوں ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں [4] اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے (معلوم ہوتے) ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں [5] تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر [6]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6،

مشرک سے براۃ اور بیزاری ٭٭

اس سورۃ مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ «وحدہ لا شریک لہ» کو نہ پوجو۔

پس «مَا» یہاں پر معنی میں «من» کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہو سکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں۔

جیسے اور جگہ ہے «إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَىٰ» [53-النجم:23] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے“۔

پس نبی اللہ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہو گا اور طریقہ عبادت ہو گا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمایا ہے۔
10892

اسی لیے کلمہ اخلاص «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ» ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اللہ کے پیغمبر ہیں اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ تمہارا دین تمہارے لیے، میرا میرے لیے۔

جیسے اور جگہ ہے «وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ» [10-یونس:41] ‏‏‏‏ یعنی ”اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے، تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں“۔

اور جگہ فرمایا: «لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ» [28-القصص:55] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ“۔

صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے تمہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دین ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں «دِينِي» تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف «نون» پر ہے اس لیے اس میں بھی «يَاءُ» کو حذف کر دیا جیسے «فَهُوَ يَهْدِينِ» [26-الشعراء:78] ‏‏‏‏ میں اور «يَشْفِينِ» [26-الشعراء:80] ‏‏‏‏ میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے «وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا» [5-المائدة:64] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں“۔

ابن جریر رحمہ اللہ نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ دو مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» * «إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا» [94-الشرح:5-6] ‏‏‏‏ میں اور جیسے «لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ» * «ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ» [102-التكاثر:6-7] ‏‏‏‏ پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے۔

لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہوں نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی بہت اچھا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
10893

امام ابوعبداللہ شافعی رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہو سکتا ہے جبکہ ان دونوں میں نسب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں [سنن ابوداود:2911،قال الشيخ الألباني:حسن صحيح] ‏‏‏‏

امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہو سکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے

سورۃ الکافرون کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالحمداللہ احسانہ»
10894



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.