تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[40] بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ[41] وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ[42] فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ[43] فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ[44] فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[45]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے، یا تم پر قیامت آجائے تو کیا اللہ کے سوا غیر کو پکارو گے؟ اگر تم سچے ہو۔ [40] بلکہ تم اسی کو پکاروگے، تو وہ دور کر دے گا جس کی طرف تم اسے پکارو گے، اگر اس نے چاہا اور تم بھول جاؤ گے جو شریک بناتے ہو۔ [41] اور بلاشبہ یقینا ہم نے تجھ سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے، پھر انھیں تنگ دستی اور تکلیف کے ساتھ پکڑا، تاکہ وہ عاجزی کریں۔ [42] پھر انھوں نے کیوں عاجزی نہ کی، جب ان پر ہمارا عذاب آیا اور لیکن ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے لیے خوش نما بنا دیا جو کچھ وہ کرتے تھے۔ [43] پھر جب وہ اس کو بھول گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انھیں دی گئی تھیں، ہم نے انھیں اچانک پکڑ لیا تو اچانک وہ ناامید تھے۔ [44] تو ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنھوں نے ظلم کیا تھا اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔ [45]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ پڑے یا تم پر قیامت ہی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو [40] بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لئے تم پکارو گے اگر وه چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے [41] اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وه اﻇہار عجز کرسکیں [42] سو جب ان کو ہماری سزا پہنچی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں نہیں اختیار کی؟ لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کردیا [43] پھر جب وه لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشاده کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وه خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وه بالکل مایوس ہوگئے [44] پھر ﻇالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے [45]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائےیا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ) [40] بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو۔ وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو [41] اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔ پھر (ان کی نافرمانیوں کے سبب) ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں [42] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہوگئے تھے۔ اور جو وہ کام کرتے تھے شیطان ان کو (ان کی نظروں میں) آراستہ کر دکھاتا تھا [43] پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو ان کو کے گئی تھی فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے۔ یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئی تھیں خوب خوش ہوگئے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے [44] غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اور سب تعریف خدائے رب العالمین ہی کو (سزاوار ہے) [45]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 40، 41، 42، 43، 44، 45،

سخت لوگ اور کثرت دولت ٭٭

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے تمام مخلوق اس کے آگے پست و لاچار ہے جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے، اس کا کوئی ارادہ بدلتا نہیں، اس کا کوئی حکم ٹلتا نہیں کوئی نہیں جو اس کی چاہت کے خلاف کر سکے یا اس کے حکم کو ٹال سکے یا اس کی قضاء کو پھیر سکے وہ سارے ملک کا تنہا مالک ہے اس کی کسی بات میں کوئی شریک یا دخیل نہیں جو اسے مانگے وہ اسے دیتا ہے، جس کی چاہے دعا قبول فرماتا ہے۔

پس فرماتا ہے ” خود تمہیں بھی ان تمام باتوں کا علم و اقرار ہے یہی وجہ ہے کہ آسمانی سزاؤں کے آ پڑنے پر تم اپنے تمام شریکوں کو بھول جاتے ہو اور صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو، اگر تم سچے ہو کہ اللہ کے ساتھ اس کے کچھ اور شریک بھی ہیں تو ایسے کٹھن موقعوں پر ان میں سے کسی کو کیوں نہیں پکارتے؟ بلکہ صرف اللہ واحد کو پکارتے ہو اور اپنے تمام معبودان باطل کو بھول جاتے ہو “۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ «وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ» [17-الإسراء:67] ‏‏‏‏ ” سمندر میں جب ضرر پہنچتا ہے تو اللہ کے سوا ہر ایک تمہاری یاد سے نکل جاتا ہے “۔

” ہم نے اگلی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے پھر ان کے نہ ماننے پر ہم نے انہیں فقرو فاقہ میں تنگی ترشی میں بیماریوں اور دکھ درد میں مبتلا کر دیا کہ اب بھی وہ ہمارے سامنے گریہ و زاری کریں عاجزانہ طور پر ہمارے سامنے جھک جائیں، ہم سے ڈر جائیں اور ہمارے دامن سے چمٹ جائیں، پھر انہوں نے ہمارے عذابوں کے آ جانے کے بعد بھی ہمارے سامنے عاجزی کیوں نہ کی؟ مسکینی کیوں نہ جتائی؟ “
2588

” بلکہ ان کے دل سخت ہو گئے، شرک، دشمنی، ضد، تعصب، سرکشی، نافرمانی وغیرہ کو شیطان نے انہیں بڑا حسن میں دکھایا اور یہ اس پر جمے رہے، جب یہ لوگ ہماری باتوں کو فراموش کر گئے ہماری کتاب کو پس پشت ڈال دیا ہمارے فرمان سے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھی انہیں ڈھیل دے دی کہ یہ اپنی برائیوں میں اور آگے نکل جائیں، ہر طرح کی روزیاں اور زیادہ سے زیادہ مال انہیں دیتے رہے یہاں تک کہ مال اولاد و رزق وغیرہ کی وسعت پر وہ بھولنے لگے اور غفلت کے گہرے گڑھے میں اترگئے تو ہم نے انہیں ناگہاں پکڑ لیا، اس وقت وہ مایوس ہو گئے “۔

امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا صوفیانہ مقولہ ہے کہ جس نے کشادگی کے وقت اللہ تعالیٰ کی ڈھیل نہ سمجھی وہ محض بےعقل ہے اور جس نے تنگی کے وقت رب کی رحمت کی امید چھوڑ دی وہ بھی محض بیوقوف ہے۔ پھر آپ اسی آیت کی تلاوت فرماتے ہیں، رب کعبہ کی قسم ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی چاہتوں کو پوری ہوتے ہوئے دیکھ کر اللہ کو بھول جاتے ہیں اور پھر رب کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔‏‏‏‏
2589

حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کے فرمان سے سر تابی کرتی ہے تو اول تو انہیں دنیا خوب مل جاتی ہے جب وہ نعمتوں میں پڑ کر بد مست ہو جاتے ہیں تو اچانک پکڑ لیے جاتے ہیں لوگو اللہ کی ڈھیل کو سمجھ جایا کرو نافرمانیوں پر نعمتیں ملیں تو غافل ہو کر نافرمانیوں میں بڑھ نہ جاؤ۔ اس لیے کہ یہ تو بدکار اور بے نصیب لوگوں کا کام ہے۔‏‏‏‏

زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر چیز کے دروازے کھول دینے سے مراد دنیا میں آسائش و آرام کا دینا ہے۔‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم دیکھو کہ کسی گنہگار شخص کو اس کی گنہگاری کے باوجود اللہ کی نعمتیں دنیا میں مل رہی ہیں تو اسے استدراج سمجھنا یعنی وہ ایک مہلت ہے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:413:حسن] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ جب کسی قوم کی بربادی کا وقت آ جاتا ہے تو ان پر خیانت کا دروازہ کھل جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان دی گئی ہوئی چیزوں پر اترانے لگتے ہیں تو ہم انہیں ناگہاں پکڑ لیتے ہیں اور اس وقت وہ محض ناامید ہو جاتے ہیں۔ پھر فرمایا ظالموں کی باگ ڈور کاٹ دی جاتی ہے۔ تعریفوں کے لائق وہ معبود بر حق ہے جو سب کا پالنہار ہے ۔ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:2306:ضعیف و منقطع] ‏‏‏‏۔
2590



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.