تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ[52] وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ[53]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور ان لوگوں کو دور نہ ہٹا جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں، تجھ پر ان کے حساب میں سے کچھ نہیں اور نہ تیرے حساب میں سے ان پر کچھ ہے کہ تو انھیں دور ہٹا دے، پس تو ظالموں میں سے ہو جائے۔ [52] اور اسی طرح ہم نے ان میں سے بعض کی بعض کے ساتھ آزمائش کی ہے، تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان میں سے احسان فرمایا ہے؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں ؟ [53]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح وشام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اسی کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ﻇلم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے [52] اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں، کیا یہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے۔ کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو خوب جانتا ہے [53]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو لوگ صبح وشام اپنی پروردگار سے دعا کرتے ہیں (اور) اس کی ذات کے طالب ہیں ان کو (اپنے پاس سے) مت نکالو۔ ان کے حساب (اعمال) کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں (پس ایسا نہ کرنا) اگر ان کو نکالوگے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے [52] اور اسی طرح ہم نے بعض لوگوں کی بعض سے آزمائش کی ہے کہ (جو دولتمند ہیں وہ غریبوں کی نسبت) کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم میں سے فضل کیا ہے (خدا نے فرمایا) بھلا خدا شکر کرنے والوں سے واقف نہیں؟ [53]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 52، 53،

آیات ۵۲-۵۳

پھر فرماتا ہے ” یہ مسلمان غرباء جو صبح شام اپنے پروردگار کا نام جپتے ہیں خبردار انہیں حقیر نہ سمجھنا انہیں اپنے پاس سے نہ ہٹانا بلکہ انہی کو اپنی صحبت میں رکھ کر انہی کے ساتھ بیٹھ اٹھ “۔

جیسے اور آیت میں ہے آیت «وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ» [18-الكهف:28] ‏‏‏‏ یعنی ” انہی کے ساتھ رہ جو صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اسی کی رضا مندی کی طلب کرتے ہیں، خبردار ان کی طرف سے آنکھیں نہ پھیرنا کہ دنیا کی زندگی کی آسائش طلب کرنے لگو اس کا کہا نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی ہے اور اس کا ہر کام حد سے گزرا ہوا ہے بلکہ ان کا ساتھ دے جو صبح شام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں “۔

بعض بزرگ فرماتے ہیں مراد اس سے فرض نمازیں ہیں اور آیت میں ہے «وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ» [40۔ غافر:60] ‏‏‏‏ ” تمہارے رب کا اعلان ہے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا ان اطاعتوں اور عبادتوں سے ان کا ارادہ اللہ کریم کے دیدار کا ہے، محض خلوص اخلاص والی ان کی نیتیں ہیں، ان کا کوئی حساب تجھ پر نہیں نہ تیرا کوئی حساب ان پر “۔

جناب نوح علیہ السلام سے جب ان کی قوم کے شرفا نے کہا تھا کہ ہم تجھے کیسے مان لیں تیرے ماننے والے تو اکثر غریب مسکین لوگ ہیں تو آپ علیہ السلام نے یہی جواب دیا کہ ان کے اعمال کا مجھے کیا علم ہے ان کا حساب تو میرے رب پر ہے لیکن تمہیں اتنا بھی شعور نہیں پھر بھی تم نے ان غریب مسکین لوگوں کو اپنی مجلس میں نہ بیٹھنے دیا۔ ان سے ذرا بھی بےرخی کی تو یاد رکھنا تمہارا شمار بھی ظالموں میں ہو جائے گا۔

مسند احمد میں ہے کہ قریش کے بڑے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک میں صہیب رضی اللہ عنہ، بلال رضی اللہ عنہ، خباب رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ تھے، انہیں دیکھ کر یہ لوگ کہنے لگے دیکھو تو ہمیں چھوڑ کر کن کے ساتھ بیٹھے ہیں؟ تو آیت «وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ» [6-الأنعام:51] ‏‏‏‏ سے «لَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ» [6-الأنعام:53] ‏‏‏‏ تک اتری ۔ [مسند احمد:420/1:حسن] ‏‏‏‏
2602

ابن جریر میں ہے کہ ان لوگوں اور ان جیسے اوروں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں دیکھ کر مشرک سرداروں نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا یہی لوگ رہ گئے ہیں کہ اللہ نے ہم سب میں سے چن چن کر انہی پر احسان کیا؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ بے زر، بے سہارا لوگ ہم امیروں رئیسوں کے برابر بیٹھیں، دیکھئے حضرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنی مجلس سے نکال دیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ سکتے ہیں، آیت «‏‏‏‏وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ» [6-الأنعام:51] ‏‏‏‏ سے «لَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ» [6-الأنعام:53] ‏‏‏‏ تک نازل ہوئی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:13258:] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے قریش کے ان معززین لوگوں میں سے دو کے نام یہ ہیں اقرع بن حابس تیمی، عینیہ بن حصن فزاری، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ تنہائی میں مل کر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھایا کہ ان غلام اور گرے پڑے بے حیثیت لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں عرب کے وفد آیا کرتے ہیں۔ وہ ہمیں ان کے ساتھ دیکھ کر ہمیں بھی ذلیل خیال کریں گے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم اتنا ہی کیجئے کہ جب ہم آئیں تب خاص مجلس ہو اور ان جیسے گرے پڑے لوگ اس میں شامل نہ کئے جائیں۔ ہاں جب ہم نہ ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہے۔ جب یہ بات طے ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا اقرار کر لیا تو انہوں نے کہا، ہمارا یہ معاہدہ تحریر میں آ جانا چاہیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ منگوایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لکھنے کے لیے بلوایا۔ مسلمانوں کا یہ غریب طبقہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اترے اور یہ آیت «‏‏‏‏وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ» [6-الأنعام:51] ‏‏‏‏ سے «لَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ» [6-الأنعام:53] ‏‏‏‏ تک نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ پھینک دیا اور ہمیں اپنے پاس بلا لیا اور ہم نے پھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حلقے میں لے لیا ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:7331/4:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن یہ حدیث غریب ہے۔ آیت مکی ہے اور اقرع اور عیینہ ہجرت کے بہت سارے زمانے کے بعد اسلام میں آئے ہیں۔

سیدنا شریح رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ آیت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے چھ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ہم لوگ سب سے پہلے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھتے تاکہ پور طرح شروع سے آخر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنیں۔ قریش کے بڑے لوگوں پر یہ بات گراں گزرتی تھی۔ اس کے برخلاف آیت اتری ۔ [صحیح مسلم:2413] ‏‏‏‏۔

پھر فرماتا ہے ” اس طرح ہم ایک دوسرے کو پرکھ لیتے ہیں اور ایک سے ایک کا امتحان لے لیتے ہیں کہ یہ امراء ان غرباء سے متعلق اپنی رائے ظاہر کر دیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا اور ہم سب میں اللہ کو یہی لوگ پسند آئے؟“
2603



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.