تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ[74] وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ[75] فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ[76] فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ[77] فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ[78] إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ[79]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے؟ بے شک میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ [74] اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے تھے اور تاکہ وہ کامل یقین والوں سے ہو جائے۔ [75] تو جب اس پر رات چھا گئی تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہوگیا تو اس نے کہا میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ [76] پھر جب اس نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہوگیا تو اس نے کہا یقینا اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی تو بلاشبہ میں ضرور گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا۔ [77] پھر جب اس نے سورج چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوگیا کہنے لگا اے میری قوم! بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو۔ [78] بے شک میں نے اپنا چہرہ اس کی طرف متوجہ کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، ایک (اللہ کی) طرف ہو کر اور میں مشرکوں سے نہیں۔ [79]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور وه وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے فرمایا کہ کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے؟ بےشک میں تجھ کو اور تیری ساری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں [74] اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں اور تاکہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں [75] پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستاره دیکھا آپ نے فرمایا کہ یہ میرا رب ہے مگر جب وه غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا [76] پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وه غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ کو میرے رب نے ہدایت نہ کی تو میں گمراه لوگوں میں شامل ہوجاؤں گا [77] پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وه بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں [78] میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں [79]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ تم بتوں کو کیا معبود بناتے ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم صریح گمراہی میں ہو [74] اور ہم اس طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں [75] (یعنی) جب رات نے ان کو (پردہٴ تاریکی سے) ڈھانپ لیا (تو آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانے والے پسند نہیں [76] پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے تو کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ لیکن جب وہ بھی چھپ گیا تو بول اٹھے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ نہیں دکھائے گا تو میں ان لوگوں میں ہوجاؤں گا جو بھٹک رہے ہیں [77] پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں [78] میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے تئیں اسی ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں [79]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 74، 75، 76، 77، 78، 79،

ابراہیم علیہ السلام اور آزر میں مکالمہ ٭٭

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ابراہیم علیہم السلام کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا۔ آزر سے مراد بت ہے۔ آپ علیہ السلام کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کا نام ہاجرہ رضی اللہ عنہا تھا یہ ابراہیم علیہ السلام کی سریہ تھیں۔‏‏‏‏

علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا۔ مجاہد اور سدی رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے ہو سکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہو گیا ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی سے نقل کیا ہے۔
2655

سلیمان رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ علیہ السلام کی زبان سے نکلا۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

«آزَر» اور «آزُر» دونوں قرأتیں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت «لِأَبِيهِ» سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود۔
2656

بعض اسے «أَتَتَّخِذُ» کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں -گویا ابراہیم علیہ السلام یوں فرماتے کہ اے باپ، کیا آپ آزر بت کو معبود مانتے ہیں؟ لیکن یہ دور کی بات ہے -خلاف لغت ہے کیونکہ حرف اتفہام کے بعد الا پنے سے پہلے میں عامل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اس کے لیے ابتداء کلام کا حق ہے۔ عربی کا یہ تو مشہور قاعدہ ہے۔

الغرض ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنے باپ کو وعظ سنا رہے ہیں اور انہیں بت پرستی سے روک رہے ہیں لیکن وہ باز نہ آئے۔ آیت میں ہے کہ «وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ عَصِيًّا يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا» [19-مريم:41-48] ‏‏‏‏ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ تو نہایت بری بات ہے کہ تم ایک بت کے سامنے الحاج اور عاجزی کرو جو اللہ کا حق ہے۔ یقیناً اس مسلک کے لوگ سب کے سب بہکے ہوئے اور راہ بھٹکے ہوئے ہیں۔

اور آیت میں کہ صدیق نبی ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا، ابا آپ ان کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کچھ فائدہ پہنچائیں۔ ابا میں آپ کو وہ کھری بات سناتا ہوں جو اب تک آپ کے علم میں نہیں آئی تھی۔ اپ میری بات مان لیجئے۔ میں آپ کو صحیح راہ کی رہنمائی کروں گا۔ ابا شیطان کی عبادت سے ہٹ جائیے۔ وہ تو رحمن کا نافرمان ہے۔ ابا مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ پر اللہ کا کوئی عذاب آ جائے اور آپ شیطان کے رفیق کار بن جائیں۔

باپ نے جواب دیا کہ ابراھیم (‏‏‏‏علیہ السلام) کیا تو میرے معبودوں سے ناراض ہے؟ سن اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ پس اب تو مجھ سے الگ ہو جا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا، اچھا میرا سلام لو۔ میں اب بھی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کروں گا۔ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔ میں تم سب کو اور تمہارے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں، چھوڑتا ہوں۔ اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں۔ ناممکن ہے کہ میں اس کی عبادت بھی کروں اور پھر بے نصیب اور خالی ہاتھ رہوں۔

چنانچہ حسبِ وعدہ خلیل اللہ علیہ السلام اپنے والد کی زندگی تک استغفار کرتے رہے لیکن جبکہ مرتے ہوئے بھی وہ شرک سے باز نہ آئے تو آپ علیہ السلام نے استغفار بند کر دیا اور بیزار ہوگئے۔
2657

چنانچہ قرآن کریم میں ہے «وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيمَ لاًّبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَآ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَهِيمَ لأَوَّاهٌ حَلِيمٌ» [9-التوبة:114] ‏‏‏‏ ” ابراھیم علیہ السلام کا پنے باپ کے لیے استغفار کرنا ایک وعدے کی بناء پر تھا -پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بے تعلق ہو گئے و اقعی ابراہیم علیہ السلام بڑے نرم دل اور بردبار تھے “ -

حدیث صحیح میں ہے قیامت کے روز ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے ملیں گے تو آزر ان سے کہے گا اے بیٹے! آج میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا تو ابراہیم علیہ السلام اپنے رب سے عرض کریں گے کہ اے رب! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن ذلیل نہ کرے گا۔ اورآج میرے لئے اس سے بڑی اور کون سی رسوائی ہو سکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے تو ارشاد فرمایا جائے گا کہ ” اے ابراہیم! تم اپنے پیچھے دیکھو تو “ وہ اپنے باپ کو دیکھنے کی بجائے ایک بجو کو دیکھیں گے، جو کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے اور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اس کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے ۔ [صحیح بخاری:3350] ‏‏‏‏

” مخلوق کو دیکھ کر خالق کی وحدانیت سمجھ میں آ جائے اس لیے ہم نے ابراھیم علیہ السلام کو آسمان و زمین کی مخلوق دکھادی “ جیسے اور آیت میں ہے «أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ» [7-الأعراف:185] ‏‏‏‏ اور جگہ ہے «أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ» [34-سبأ:9] ‏‏‏‏۔ یعنی ” کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لیے جو (‏‏‏‏دل سے) متوجہ ہو “۔ ‏
2658

ابن جریر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی نگاہوں کے سامنے آسمان پھٹ گئے تھے اور ابراہیم علیہ السلام آسمان کی سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی نظر عرش تک پہنچی اور ساتوں زمینیں ان کے لیے کھل گئیں اور وہ زمین کے اندر کی چیزیں دیکھنے لگے۔‏‏‏‏

بعض نے اس مضمون کا بھی اضافہ کیا ہے کہ وہ لوگوں کے معاص کو بھی دیکھنے لگے تھے اور ان گنہگاروں پر بد دعا کرنے لگے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” نہیں اے ابراہیم (‏‏‏‏علیہ السلام)! میں تم سے زیادہ اپنے بندوں پر کریم ہوں کیا عجب کہ بعد کو وہ توبہ کر لیں اور رجوع کر لیں “۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنی قدرت سے آسمان و زمین کی چھپی ہوئی اور علانیہ ساری چیزیں دکھلا دیں ان میں کچھ بھی چھپا نہ رہا۔ اور جب وہ اصحاب گناہ پر لعن کر رہے تھے تو فرمایا کہ ” ایسا نہیں اور ان کی بد دعا کو رد کر دیا “۔ پھر وہ حسب سابق ہو گئے۔‏‏‏‏

اس لیے محتمل ہے کہ ان کی نگاہوں پر سے پردہ ہٹ گیا ہو جہاں ان کے لیے عیاں ہو گیا ہو۔ اور یہ بھی محتمل ہے کہ اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی حکمت باہرہ اور دلالت قاطعہ کو معلوم کر لیا ہو۔ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب مروی ہے کہ عالم خواب میں اللہ تعالیٰ ایک بہترین شکل میں میرے پاس آیا اور فرمانے لگا اے محمد (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم ) املا اعلیٰ میں کیا بحث ہو رہی ہے؟ “ میں نے کہا یا رب میں نہیں جانتا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا کہ اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک میں پنے سینے میں پانے لگا۔ پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا ۔ [سنن ترمذي:3235،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

«وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ» میں «وَلِيَكُونَ» کا واؤ زائد ہے۔ اس کی تقدیر یوں ہوئی کہ «وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ لِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ» [6-الأنعام:75] ‏‏‏‏ یعنی بغیر واؤ کے جیسے کہ اس آیت «(‏‏‏‏وَكَذَلِكَ) نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ» [6-الأنعام:55] ‏‏‏‏ میں۔ اس میں «الْآيَاتِ» کے بعد واؤ زائد ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زائد نہیں ہے بلکہ سابقہ بات کی بنیاد پر بات کو اٹھایا گیا ہے۔ یعنی ” ہم نے اس پر ملکوت ظاہر کر دیا تاکہ وہ دیکھے اور یقین بھی کرلے “۔ یہ سب بطور مناظرہ کے تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دوسری بات ہی مروی ہے۔
2659

ابن جریر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے، اس کی دلیل میں آپ رحمہ اللہ کا یہ قول لاتے ہیں کہ اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہو جاتا -

امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے: نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہو گا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کر دیئے جائیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں، وہیں خلیل اللہ علیہ السلام پیدا ہوئے، تو جب آپ علیہ السلام اس غار سے باہر نکلے تب آپ علیہ السلام نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔

بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے، اول تو آپ علیہ السلام نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اس لیے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارے میں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی۔

یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں۔ پوجتے تھے، چاند، عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مستری، زحل۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ علیہ السلام نے ادنیٰ سے شروع کیا اور اعلیٰ تک لے گئے۔ پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں یہ مقررہ چال سے چلتا اور مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا۔ تو جبکہ وہ خود بے شمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہےپھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے؟
2660

پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے، ان کی محبت سے دور ہوں -سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے۔‏‏‏‏

جیسے قرآنی ارشاد ہے: «إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ السَمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ» [7-الأعراف:54] ‏‏‏‏ ” تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے “۔

یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ سلام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ علیہ السلام اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَلَقَدْ ءَاتَيْنَآ إِبْرَهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَـلِمِينَ ـ إِذْ قَالَ لاًّبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـذِهِ التَّمَـثِيلُ الَّتِى أَنتُمْ لَهَا عَـكِفُونَ» [21-الأنبياء:51-52] ‏‏‏‏ ” ہم نے پہلے سے ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو؟ “

اور آیت میں ہے: «‏‏‏‏إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» [16-النحل:120-123] ‏‏‏‏ ” بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے۔ ‏ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سمجھا دی تھی۔ ‏ ہم نے اس دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکو کاروں میں ہیں۔ ‏ پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے “۔ ‏
2661

بخاری و مسلم میں ہے، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے - [صحیح بخاری:4775] ‏‏‏‏

صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے ۔ [صحیح مسلم:2865] ‏‏‏‏

کتاب اللہ میں ہے: «فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ» [30-الروم:30] ‏‏‏‏ ” اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں “

اور آیت میں ہے: «وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى» [ 7-الأعراف: 172 ] ‏‏‏‏ ” اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں “۔ پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا ان شاءاللہ۔

پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمن ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے۔ نہیں نہیں آپ علیہ السلام کی فطرت سالم تھی آپ علیہ السلام کی عقل صحیح تھی آپ علیہ السلام اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے۔ آپ علیہ السلام کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبردست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے۔
2662



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.