تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ[93] وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمْ مَا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ لَقَدْ تَقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَا كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ[94]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا کہے میری طرف وحی کی گئی ہے، حالانکہ اس کی طرف کوئی چیز وحی نہیں کی گئی اور جو کہے میں (بھی) ضرور اس جیسا نازل کروں گا جو اللہ نے نازل کیا۔ اور کاش! تو دیکھے جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں، نکالو اپنی جانیں، آج تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس کے بدلے جو تم اللہ پر ناحق (باتیں) کہتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔ [93] اور بلاشبہ یقینا تم ہمارے پاس اکیلے اکیلے آئے ہو، جیسے ہم نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور اپنی پیٹھوں کے پیچھے چھوڑ آئے ہو جو کچھ ہم نے تمھیں دیا تھا اور ہم تمھارے ساتھ تمھارے وہ سفارش کرنے والے نہیںدیکھتے جنھیں تم نے گمان کیا تھا کہ بے شک وہ تم میں حصے دار ہیں۔ بلا شبہ یقینا تمھارا آپس کا رشتہ کٹ گیا اور تم سے گم ہوگیا جو کچھ تم گمان کیا کرتے تھے۔ [94]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اس شخص سے زیاده کون ﻇالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حاﻻنکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی ﻻتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ﻇالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔ آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے، اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کرتے تھے [93] اور تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اور ہم تو تمہارے ہمراه تمہارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وه تمہارے معاملے میں شریک ہیں۔ واقعی تمہارے آپس میں تو قطع تعلق ہوگیا اور وه تمہارا دعویٰ سب تم سے گیا گزرا ہوا [94]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے۔ یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب خدا نے نازل کی ہے اس طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں۔ اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لئے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم خدا پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے [93] اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے اور جو (مال ومتاع) ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم خیال کرتے تھے کہ وہ تمہارے (شفیع اور ہمارے) شریک ہیں۔ (آج) تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے اور جو دعوے تم کیا کرتے تھے سب جاتے رہے [94]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 93، 94،

مغضوب لوگ ٭٭

اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں خواہ اس جھوٹ کی نوعیت یہ ہو کہ اللہ کی اولاد ہے یا اس کے کئی شریک ہیں یا یوں کہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے حالانکہ دراصل رسول نہیں -خواہ مخواہ کہہ دے کہ میری طرف وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ کوئی وحی نہ اتری ہو اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم نہیں ہو جو اللہ کی سچی وحی سے صف آرائی کا مدعی ہو۔

چنانچہ اور آیتوں میں ایسے لوگوں کا بیان ہے کہ ” وہ قرآن کی آیتوں کو سن کر کہا کرتے تھے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام کہہ سکتے ہیں، کاش کہ تو ان ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھتا جبکہ فرشتوں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور وہ مار پیٹ کر رہے ہونگے “۔ یہ محاورہ مار پیٹ سے ہے، جیسے ہابیل قابیل کے قصے میں آیت «لَىِٕنْ بَسَطْتَّ اِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِيْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ يَّدِيَ اِلَيْكَ لِاَقْتُلَكَ اِنِّىْٓ اَخَاف اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ» [5۔المائدہ:28] ‏‏‏‏ ہے اور آیت میں «وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ بالسُّوْءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ» [60-الممتحنة:2] ‏‏‏‏ ہے۔ ضحاک اور ابوصالح رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔
2694

خود قرآن کی آیت میں «يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ» [8-الانفال:50] ‏‏‏‏ موجود ہے یعنی ” کافروں کی موت کے وقت فرشتے ان کے منہ پر اور کمر پر مارتے ہیں “۔ یہی بیان یہاں ہے کہ ” فرشتے ان کی جان نکالنے کیلئے انہیں مار پیٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی جانیں نکالو “۔

کافروں کی موت کے وقت فرشتے انہیں عذابوں، زنجیروں، طوقوں کی، گرم کھولتے ہوئے جہنم کے پانی اور اللہ کے غضب و غصے کی خبر سناتے ہیں جس سے ان کی روح ان کے بدن میں چھپتی پھرتی ہے اور نکلنا نہیں چاہتی، اس پر فرشتے انہیں مار پیٹ کر جبراً گھسیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب تمہاری بدترین اہانت ہوگی اور تم بری طرح رسوا کئے جاؤ گے جیسے کہ تم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اس کے فرمان کو نہیں مانتے تھے اور اس کے رسولوں کی تابعداری سے چڑتے تھے۔

مومن و کافر کی موت کا منظر جو احادیث میں آیا ہے وہ سب آیت «يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاءُ» [14۔ ابراہیم:27] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں ہے، ابن مردویہ نے اس جگہ ایک بہت لمبی حدیث بیان کی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے۔ [الدر المنشور للسیوطی:56/3:ضعیف] ‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
2695

پھر فرماتا ہے کہ ” جس دن انہیں ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا اس دن ان سے کہا جائے گا کہ «وَعُرِضُوا عَلَىٰ رَبِّكَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ» [18-الكهف:48] ‏‏‏‏ ” تم تو اسے بہت دور اور محال مانتے تھے تو اب دیکھ لو جس طرح شروع شروع میں ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اوب دوبارہ بھی پیدا کر دیا -جو کچھ مال متاع ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا سب تم وہیں اپنے پیچھے چھوڑ آئے “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہی ہے جسے تو نے کھا پی لیا وہ تو فنا ہو گیا یا تو نے پہن اوڑھ لیا وہ پھٹا پرانا ہو کر ضائع ہو گیا یا تو نے نام مولٰی پر خیرات کیا وہ باقی رہا اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو، تو اوروں کے لیے چھوڑ کر یہاں سے جانے والا ہے
۔ [صحیح مسلم:2958] ‏‏‏‏

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور رب العالمین اس سے دریافت فرمائے گا کہ ” جو تو نے جمع کیا تھا وہ کہاں ہے؟ “ یہ جواب دے گا کہ خوب بڑھا چڑھا کر اسے دنیا میں چھوڑ آیا ہوں۔
2696

اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” اے ابن آدم پیچھے چھوڑا ہوا تو یہاں نہیں ہے البتہ آگے بھیجا ہوا یہاں موجود ہے “ -اب جو یہ دیکھے گا تو کچھ بھی نہ پائے گا پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھی، پھر انہیں ان کا شرک یاد دلا کر دھمکایا جائے گا کہ «أَيْنَ شُرَكَاؤُكُمُ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ» [6-الأنعام:22] ‏‏‏‏ ” جنہیں تم اپنا شریک سمجھ رہے تھے اور جن پر ناز کر رہے تھے کہ ہمیں بچا لیں گے اور نفع دیں گے وہ آج تمہارے ساتھ کیوں نہیں؟ وہ کہاں رہ گئے؟ انہیں شفاعت کے لیے کیوں آگے نہیں بڑھاتے؟ “

حق یہ ہے کہ قیامت کے دن سارے جھوٹ بہتان افترا کھل جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو سنا کر ان سے فرمائے گا ” جنہیں تم نے میرے شریک ٹھہرا رکھا تھا وہ کہاں ہیں؟ “ اور ان سے کہا جائے گا کہ ” جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ نہ وہ تمہاری مدد کرتے ہیں نہ خود اپنی مدد وہ آپ کرتے ہیں۔ تم تو دنیا میں انہیں مستحق عبادت سمجھتے رہے “۔

«بَيْنَكُمْ» کی ایک قرأت «بَيْنُكُمْ» بھی ہے یعنی تمہاری یکجہتی ٹوٹ گئی اور پہلی قرأت پر یہ معنی ہیں کہ جو تعلقات تم میں تھے جو وسیلے تم نے بنا رکھے تھے سب کٹ گئے معبودان باطل سے جو غلط منصوبے تم نے باندھ رکھے تھے سب برباد ہو گئے۔

جیسے فرمان باری ہے آیت «إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ اللَّـهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ» [2-البقرہ:166-167] ‏‏‏‏ یعنی ” تابعداری کرنے والے ان سے بیزار ہوں گے جن کی تابعداری وہ کرتے رہے اور سارے رشتے ناتے اور تعلقات کٹ جائیں گے “۔
2697

اس وقت تابعدار لوگ حسرت و افسوس سے کہیں گے کہ اگر ہم دنیا میں واپس جائیں تو تم سے بھی ایسے ہی بیزار ہو جائیں گے جیسے تم ہم سے بیزار ہوئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے کرتوت دکھائے گا ان پر حسرتیں ہوں گی اور یہ جہنم سے نہیں نکلیں گے۔

اور آیت میں ہے «فَإِذَا نُفِخَ فِى الصُّورِ فَلاَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلاَ يَتَسَآءَلُونَ» [23-المؤمنون:101] ‏‏‏‏ ” جب صور پھونکا جائے گا تو آپس کے نسب منقطع ہو جائیں گے اور کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا “۔ اور آیت میں ہے کہ «إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّـهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ» [29-العنکبوت:25] ‏‏‏‏ ” جن جن کو تم نے اپنا معبود ٹھہرا رکھا ہے اور ان سے دوستیاں رکھتے ہو وہ قیامت کے دن تمہارے اور تم ان کے منکر ہو جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے تو تم سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور کوئی بھی تمہارا مددگار کھڑا نہ ہو گا “۔

اور آیت میں ہے «وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ» [28-القصص:64] ‏‏‏‏ یعنی ” ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو آواز دو وہ پکاریں گے لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملے گا “۔

اور آیت میں ہے «وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ» [6۔الأنعام:22] ‏‏‏‏ یعنی ” قیامت کے دن ہم ان سب کا حشر کریں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے کہاں ہیں تمہارے شریک؟“ اس بارے کی اور آیتیں بھی بہت ہیں۔
2698



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.