تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَدْ جَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ[104] وَكَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ[105]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بلا شبہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے کئی نشانیاں آچکیں، پھر جس نے دیکھ لیا تو اس کی جان کے لیے ہے اور جو اندھا رہا تو اسی پر ہے اور میں تم پر کوئی محافظ نہیں۔ [104] اور اسی طرح ہم آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں اور تاکہ وہ کہیں تو نے پڑھا ہے اور تاکہ ہم اسے ان لوگوں کے لیے واضح کر دیں جو جانتے ہیں۔ [105]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع پہنچ چکے ہیں سو جو شخص دیکھ لے گا وه اپنا فائده کرے گا اور جو شخص اندھا رہے گا وه اپنا نقصان کرے گا، اور میں تمہارا نگران نہیں ہوں [104] اور ہم اس طور پر دﻻئل کو مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ یوں کہیں کہ آپ نے کسی سے پڑھ لیا ہے اور تاکہ ہم اس کو دانشمندوں کے لئے خوب ﻇاہر کردیں [105]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اے محمدﷺ! ان سے کہہ دو کہ) تمہارے (پاس) پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیلیں پہنچ چکی ہیں تو جس نے (ان کو آنکھ کھول کر) دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا اور جو اندھا بنا رہا اس نے اپنے حق میں برا کیا۔ اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں [104] اور ہم اسی طرح اپنی آیتیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم (یہ باتیں اہل کتاب سے) سیکھے ہوئے ہو اور تاکہ سمجھنے والے لوگوں کے لئے تشریح کردیں [105]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 104، 105،

ہدایت و شفا قرآن و حدیث میں ہے ٭٭

«بَصَائِرُ» سے مراد دلیلیں اور حجتیں ہیں جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں جو انہیں دیکھے اور ان سے نفع حاصل کرے وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے -جیسے فرمان ہے کہ «مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا» [17-الإسراء:15] ‏‏‏‏ ” راہ پانے والا اپنے لیے راہ پاتا ہے اور گمراہ ہونے والا اپنا ہی بگاڑتا ہے “۔

یہاں بھی فرمایا ” اندھا اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ آخر گمراہی کا اسی پر اثر پڑتا ہے “۔ جیسے ارشاد ہے «فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ» [22-الحج:46] ‏‏‏‏ ” آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہو جاتے ہیں “۔

میں تم پر نگہبان حافظ چوکیدار نہیں بلکہ میں تو صرف مبلغ ہوں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، جس طرح توحید کے دلائل واضح فرمائے اسی طرح اپنی آیتوں کو کھول کھول کر تفسیر اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ کوئی جاہل نہ رہ جائے اور مشرکین مکذبین اور کافرین یہ نہ کہہ دیں کہ تو نے اے نبی (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم ) اہل کتاب سے یہ درس لیا ہے ان سے پڑھا ہے انہی نے تجھے سکھایا ہے۔
2717

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ تو نے پڑھ سنایا تو نے جھگڑا کیا، تو یہ اسی آیت کی طرح آیت ہوگی جہاں بیان ہے «وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا» [25-الفرقان:5-4] ‏‏‏‏ ” کافروں نے کہا کہ یہ تو صرف بہتان ہے جسے اس نے گھڑ لیا ہے اور دوسروں نے اس کی تائید کی ہے “۔

اور آیتوں میں ان کے بڑے کا قول ہے کہ «إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ثُمَّ نَظَرَ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ» [74-المدثر:18-25] ‏‏‏‏ ” اس نے بہت کچھ غور وخوض کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے، یقیناً یہ انسانی قول ہے اور اس لیے کہ ہم علماء کے سامنے وضاحت کر دیں تاکہ وہ حق کے قائل اور باطل کے دشمن بن جائیں “۔

رب کی مصلحت وہی جانتا ہے کہ جو ایک گروہ کو ہدایت اور دوسرے کو ضلالت عطا کرتا ہے، جیسے فرمایا «يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ» [2-البقرہ:26] ‏‏‏‏ ” اس کے ساتھ بہت کو ہدایت کرتا ہے اور بہت کو گمراہ کرتا ہے “۔

اور آیت میں ہے «لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ» [22-الحج:53] ‏‏‏‏ ” تاکہ وہ شیطان کے القا کو بیمار دلوں کیلئے سبب فتنہ کر دے “۔

اور فرمایا آیت «وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰىِٕكَةً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا» [74-المدثر:31] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے دوزخ کے پاسبان فرشتے مقرر کئے ہیں ان کی مقررہ تعداد بھی کافروں کے لیے فتنہ ہے تاکہ اہل کتاب کامل یقین کرلیں ایماندار ایمان میں بڑھ جائیں اہل کتاب اور مومن شک شبہ سے الگ ہو جائیں اور بیمار دل کفر والے کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے اسی طرح جسے اللہ چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے، تیرے رب کے لشکروں کو بجز اس کے کوئی نہیں جانتا “۔
2718

اور آیت میں ہے «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا» [17-الاسراء:82] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے قرآن اتارا ہے جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے البتہ ظالموں کو تو نقصان ہی ملتا ہے “۔

اور آیت میں ہے کہ «قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَـٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ» [41-فصلت:44] ‏‏‏‏ ” یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفاء ہے اور بے ایمان وں کے کانوں میں بوجھ ہے اور ان پر اندھا پن غالب ہے یہ دور کی جگہ سے پکارے جا رہے ہیں “۔

اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گمراہ بھی ہوتے ہیں۔ «دَارَسْتَ» کی دوسری قرأت «دَرَسْتَ» بھی ہے یعنی پڑھا اور سیکھا اور یہ معنی ہیں کہ اسے تو مدت گزر چکی یہ تو تو پہلے سے لایا ہوا ہے، یہ تو تو پڑھایا گیا ہے اور سکھایا گیا ہے۔ ایک قرأت میں «دَرَسَ» بھی ہے۔ [الدر المنشور للسیوطی:70/3:] ‏‏‏‏ لیکن یہ غریب ہے

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے «درَسْتَ» پڑھایا ہے۔ [الدر المنشور للسیوطی:70/3:] ‏‏‏‏
2719



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.