تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ[109] وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ[110]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور انھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ بے شک اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو اس پر ضرور ہی ایمان لے آئیں گے۔ تو کہہ نشانیاں تو صرف اللہ کے پاس ہیں اور تمھیں کیا چیز معلوم کرواتی ہے کہ وہ (نشانیاں ) جب آئیں گی تو یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ [109] اور ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے، جیسے وہ اس پر پہلی بار ایمان نہیں لائے اور انھیں چھوڑ دیں گے، اپنی سر کشی میں بھٹکتے پھریں گے۔ [110]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آ جائے تو وه ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضے میں ہیں اور تم کو اس کی کیا خبر کہ وه نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ ﻻئیں گے [109] اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جیسا کہ یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں ﻻئے اور ہم ان کو ان کی سرکشی میں حیران رہنے دیں گے [110]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو وہ اس پر ضروری ایمان لے آئیں۔ کہہ دو کہ نشانیاں تو سب خدا ہی کے پاس ہیں۔ اور (مومنو!) تمہیں کیا معلوم ہے (یہ تو ایسے بدبخت ہیں کہ ان کے پاس) نشانیاں آ بھی جائیں تب بھی ایمان نہ لائیں [109] اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے) اور ان کو چھوڑ دیں گے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں [110]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 109، 110،

معجزوں کے طالب لوگ ٭٭

صرف مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اور اس لیے بھی کہ خود مسلمان شک شبہ میں پڑ جائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم بھی مسلمان ہو جائیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ہدایت فرماتا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے دکھائے چاہے نہ دکھائے “۔

ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں موسیٰ علیہ السلام ایک پتھر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور ثمود علیہ السلام نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جو معجزہ ہم کہیں دکھا دیں واللہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مان لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ آپ صفا پہاڑ کو ہمارے لیے سونے کا بنا دیں پھر تو قسم اللہ کی ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا جاننے لگیں گے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اس کلام سے کچھ امید بندھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی وہیں جبرائیل آئے اور فرمانے لگے سنئے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو اللہ بھی اس صفا پہار کو سونے کا کر دے گا لیکن اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ان سب کو فنا کر دے گا ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آ جائیں۔‏‏‏‏

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اللہ تعالیٰ میں صفا کا سونا نہیں چاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب فرما ۔ اسی پر یہ آیتیں «وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ» [6-الأنعام:111] ‏‏‏‏ تک نازل ہوئیں
۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:13750:مرسل] ‏‏‏‏ یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شاہد بہت ہیں۔
2725

چنانچہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت «وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ» [17-الاسراء:59] ‏‏‏‏ یعنی ” معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیز مانع ہے کہ ان سے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلایا “۔

«أَنَّهَا» کی دوسری قرأت «اِنَّهَا» بھی ہے اور «لَا يُؤْمِنُونَ» کی دوسری قرأت «لَا تُؤْمِنُونَ» ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ” اے مشرکین کیا خبر ممکن ہے خود تمہارے طلب کردہ معجزوں کے آ جانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو “۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی ” اے مسلمانو! تم نہیں جانتے یہ لوگ ان نشانیوں کے ظاہر ہو چکنے پر بھی بے ایمان ہی رہیں گے “۔

اس صورت میں «أَنَّهَا» الف کے زیر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی «يُشْعِرُكُمْ» کا معمول ہو کر اور «لَا يُؤْمِنُونَ» کا لام اس صورت میں صلہ ہو گا جیسے آیت «قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ» [7-الأعراف:12] ‏‏‏‏ میں۔
2726

اور آیت «وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ» [21-الأنبياء:95] ‏‏‏‏ میں تو مطلب یہ ہوتا کہ ” اے مومنو تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اپنی من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی؟ “۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «أَنَّهَا» معنی میں «لَعَلَّهَا» کے ہے،بلکہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «أَنَّهَا» کے بدلے «لَعَلَّهَا» ہی ہے۔ عرب کے محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
2727

پھر فرماتا ہے کہ ” ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں، اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں -ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہو چکی ہے، روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی بے ایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے “۔

اللہ تعالیٰ ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے؟ اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے؟ اسی لیے اس نے بتلا دیا کہ ایسا ہو گا فرماتا ہے آیت «وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ» [35-فاطر:14] ‏‏‏‏ ” اللہ تعالیٰ جو کامل خبر رکھنے والا ہے اور اس جیسی خبر اور کون دے سکتا ہے؟ “۔

اس نے فرمایا کہ «أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّـهِ وَإِن كُنتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّـهَ هَدَانِي لَكُنتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ» [39-الزمر:56-58] ‏‏‏‏ ” یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ کر دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں “۔

لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے «وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ» [6-الأنعام:28] ‏‏‏‏ ” اگر بالفرض یہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے، ہرگز نہ چھوڑیں گے “۔

یہاں بھی فرمایا کہ ” معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لیے مفید نہ ہوگا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کیلئے کوئی جگہ خالی ہی نہیں۔ پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے۔ بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے “۔ (‏‏‏‏اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھے۔ آمین)۔
2728



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.