تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
ذَلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ[131] وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ[132]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یہ اس لیے کہ بے شک تیرا رب کبھی بستیوں کو (ان کے) کسی ظلم کی وجہ سے ہلاک کرنے والا نہیں، جب کہ اس کے رہنے والے بے خبر ہوں۔ [131] اور ہر ایک کے لیے مختلف درجے ہیں، ان اعمال کی وجہ سے جو انھوں نے کیے اور تیرا رب اس سے ہرگز بے خبر نہیں جو وہ کر رہے ہیں۔ [132]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ کا رب کسی بستی والوں کو کفر کے سبب ایسی حالت میں ہلاک نہیں کرتا کہ اس بستی کے رہنے والے بے خبر ہوں [131] اور ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے سبب درجے ملیں گے اور آپ کا رب ان کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے [132]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (اے محمدﷺ!) یہ (جو پیغمبر آتے رہے اور کتابیں نازل ہوتی رہیں تو) اس لیے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے رہنے والوں کو (کچھ بھی) خبر نہ ہو [131] اور سب لوگوں کے بلحاظ اعمال درجے (مقرر) ہیں اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں خدا ان سے بے خبر نہیں [132]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 131، 132،

حجت تمام ٭٭

جن اور انسانوں کی طرف رسول بھیج کر، کتابیں اتار کر ان کے عذر ختم کر دیئے اس لیے کہ یہ اللہ کا اصول نہیں کہ وہ کسی بستی کے لوگوں کو اپنی منشاء معلوم کرائے بغیر چپ چاپ اپنے عذابوں میں جکڑ لے اور اپنا پیغام پہنچائے بغیر بلا وجہ ظلم کے ساتھ ہلاک کر دے -

فرماتا ہے آیت «وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ» [35-فاطر:24] ‏‏‏‏ یعنی ” کوئی بستی ایسی نہیں جہاں کوئی آگاہ کرنے والا نہ آیا ہو “۔

اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ» [16-النحل:36] ‏‏‏‏ ” ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اے لوگو! اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے بچو “۔ اور جگہ ہے «وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا» [17-الإسراء:15] ‏‏‏‏ ” ہم رسولوں کو بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں کیا کرتے “۔

سورۃ تبارک میں ہے «تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ» [67-الملك:8-9] ‏‏‏‏ ” جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی تو وہاں کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس آ گاہ کرنے والے نہیں آئے تھے؟ وہ کہیں گے آئے تھے “ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں۔

اس آیت کے پہلے جملے کے ایک معنی امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اور بھی بیان کئے ہیں اور فی الواقع وہ معنی بہت درست ہیں امام صاحب نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے یعنی یہ کہ کسی بستی والوں کے ظلم اور گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں اسی وقت ہلاک نہیں کرتا جب تک نبیوں کو بھیج کر انہیں غفلت سے بیدار نہ کر دے، ہر عامل اپنے عمل کے بدلے کا مستحق ہے۔ نیک نیکی کا اور بد بدی کا، خواہ انسان ہو خواہ جن ہو۔‏‏‏‏

بدکاروں کے جہنم میں درجے ان کی بدکاری کے مطابق مقرر ہیں جو لوگ خود بھی کفر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ الہیہ سے روکتے ہیں انہیں عذاب پر عذاب ہوں گے اور ان کے فساد کا بدلہ ملے گا ہر عامل کا عمل اللہ پر روشن ہے تاکہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کا بدلہ مل جائے۔
2766



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.