تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[145]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے میں اس وحی میں، جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا جسے وہ کھائے، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کہ بیشک وہ گندگی ہے، یا نافرمانی (کا باعث) ہو، جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، پھر جو مجبور کردیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو بیشک تیرا رب بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [145]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وه مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وه بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کہ غیراللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہوجائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے واﻻ ہو تو واقعی آپ کا رب غفور و رحیم ہے [145]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے [145]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 145،

اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام ٭٭

اللہ تعالیٰ عزوجل اپنے بندے اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں سے جو اللہ کے حلال کو اپنی طرف سے حرام کرتے ہیں فرمادیں کہ جو وحی الٰہی میرے پاس آئی ہے اس میں تو حرام صرف ان چیزوں کو کیا گیا ہے، جو میں تمہیں سناتا ہوں، اس میں وہ چیزیں حرمت والی نہیں، جن کی حرمت کو تم رائج کر رہے ہو “ -کسی کھانے والے پر حیوانوں میں سے سوا ان جانوروں کے جو بیان ہوئے ہیں کوئی بھی حرام نہیں -

اس آیت کے مفہوم کا رفع کرنے والی سورۃ المائدہ کی آئندہ آیتیں اور دوسری حدیثیں ہیں جن میں حرمت کا بیان ہے وہ بیان کی جائیں گی۔ بعض لوگ اسے نسخ کہتے ہیں اور اکثر متأخرین اسے نسخ نہیں کہتے کیونکہ اس میں تو اصلی مباح کو اٹھا دینا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

خون وہ حرام ہے جو بوقت ذبح بہہ جاتا ہے، رگوں میں اور گوشت میں جو خون مخلوط ہو وہ حرام نہیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گدھوں اور درندوں کا گوشت اور ہنڈیا کے اوپر جو خون کی سرخی آ جائے، اس میں کوئی حرج نہیں جانتی تھیں۔

عمرو بن دینار نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھوں کا کھانا حرام کر دیا ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہاں حکم بن عمرو رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی روایت کرتے ہیں لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کا انکار کرتے ہیں اور آیت «قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» [6-الأنعام:145] ‏‏‏‏ تلاوت کرتے ہیں۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:5529] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اہل جاہلیت بعض چیزیں کھاتے تھے بعض کو بوجہ طبعی کراہیت کے چھوڑ دیتے تھے۔ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، اپنی کتاب اتاری، حلال حرام کی تفصیل کر دی، پس جسے حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کر دیا وہ حرام ہے اور جس سے خاموش رہے وہ معاف ہے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اسی آیت «قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» [6-الأنعام:145] ‏‏‏‏ کی تلاوت کی۔ [سنن ابوداود:3800،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی بکری مرگئی، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ جواب دیا کہ کیا مردہ بکری کی کھال اتار لینی جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرما کر فرمایا کہ اس کا صرف کھانا حرام ہے، لیکن تم اسے دباغت دے کر نفع حاصل کر سکتے ہو ۔ چنانچہ انہوں نے آدمی بھیج کر کھال اتروالی اور اس کی مشک بنوائی جو ان کے پاس مدتوں رہی اور کام آئی ۔ رضی اللہ عنہ [صحیح بخاری:6686] ‏‏‏‏
2787

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے قنفد (‏‏‏‏یعنی خار پشت جسے اردو میں ساہی بھی کہتے ہیں) کے کھانے کی نسبت سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی اس پر ایک بزرگ نے فرمایا میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ خبیثوں میں سے ایک خبیث ہے اسے سن کر ابن عمر نے فرمایا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے تو وہ یقیناً ویسی ہی ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما دیا - [سنن ابوداود:3799،قال الشيخ الألباني:ضعیف الاسناد] ‏‏‏‏
2788

پھر فرمایا ” جو شخص ان حرام چیزوں کو کھانے پر مجبور ہو جائے لیکن وہ باغی اور ہد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اسے اس کا کھا لینا جائز ہے اللہ اسے بخش دے گا کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے “ -

اس کی کامل تفسیر سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہے یہاں تو مشرکوں کے اس فعل کی تردید منظور ہے جو انہوں نے اللہ کے حلال کو حرام کر دیا تھا اب بتا دیا گیا کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں۔ اگر اللہ کی طرف سے وہ بھی حرام ہوتیں تو ان کا ذکر بھی آ جاتا۔ پھر تم اپنی طرف سے حلال کیوں مقرر کرتے ہو؟

اس بنا پر پھر اور چیزوں کی حرمت باقی رہتی جیسے کہ گھروں کے پالتو گدھوں کی ممانعت اور درندوں کے گوشت کی اور جنگل والے پرندوں کی جیسے کہ علماء کا مشہور مذہب ہے (‏‏‏‏یہ یاد رہے کہ ان کی حرمت قطعی ہے کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور قرآن نے حدیث کا ماننا بھی فرض کیا ہے۔ مترجم)
2789



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.