تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ[148] قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ[149] قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ هَذَا فَإِنْ شَهِدُوا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ[150]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] عنقریب وہ لوگ کہیں گے جنھوں نے شریک بنائے ہیں، اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شریک بناتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے ہمارا عذاب چکھ لیا۔ کہہ کیا تمھارے پاس کوئی علم ہے کہ تم اسے ہمارے لیے نکالو، تم تو گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کر رہے اور تم اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکل دوڑاتے ہو۔ [148] کہہ دے پھر کامل دلیل تو اللہ ہی کی ہے، سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ضرور ہدایت دے دیتا۔ [149] کہہ لاؤ اپنے وہ گواہ جو شہادت دیں کہ اللہ نے یہ چیزیں حرام کی ہیں، پھر اگر وہ شہادت دے دیں تو توُ ان کے ساتھ شہادت مت دے اور ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے مت چل جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔ [150]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کامزه چکھا۔ آپ کہیے کہ کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے روبرو ﻇاہر کرو۔ تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں بناتے ہو [148] آپ کہیے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی رہی۔ پھر اگر وه چاہتا تو تم سب کو راه راست پر لے آتا [149] آپ کہیے کہ اپنے گواہوں کو لاؤ جو اس بات پر شہادت دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام کردیا ہے، پھر اگر وه گواہی دے دیں تو آپ اس کی شہادت نہ دیجئے اور ایسے لوگوں کے باطل خیاﻻت کا اتباع مت کیجئے! جو ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں اور وه جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور وه اپنے رب کے برابر دوسروں کو ٹھہراتے ہیں [150]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا (شرک کرتے) اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ ہمارے عذاب کا مزہ چکھ کر رہے کہہ دو کیا تمہارے پاس کوئی سند ہے (اگر ہے) تو اسے ہمارے سامنے نکالو تم محض خیال کے پیچھے چلتے اور اٹکل کی تیر چلاتے ہو [148] کہہ دو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا [149] کہو کہ اپنے گواہوں کو لاؤ جو بتائیں کہ خدا نے یہ چیزیں حرام کی ہیں پھر اگر وہ (آ کر) گواہی دیں تو تم ان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور نہ ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کرنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور (بتوں کو) اپنے پروردگار کے برابر ٹھہراتے ہیں [150]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 148، 149، 150،

غلط سوچ سے باز رہو ٭٭

مشرک لوگ دلیل پیش کرتے تھے کہ ہمارے شرک کا حلال کو حرام کرنے کا حال تو اللہ کو معلوم ہی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ اگر چاہے تو اس کے بدلنے پر بھی قادر ہے۔ اس طرح کہ ہمارے دل میں ایمان ڈال دے یا کفر کے کاموں کی ہمیں قدرت ہی نہ دے۔
2793

پھر بھی اگر وہ ہماری اس روش کو نہیں بدلتا تو ظاہر ہے کہ وہ ہمارے ان کاموں سے خوش ہے اگر وہ چاہتا تو ہم کیا ہمارے بزرگ بھی شرک نہ کرتے۔ جیسے ان کا یہی قول آیت «وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَـٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ» [43-الزخرف:20] ‏‏‏‏ میں اور سورۃ النحل میں ہے۔

اللہ فرماتا ہے «كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ» ” اسی شبہ نے ان سے پہلی قوموں کو تباہ کر دیا “۔ اگر یہ بات سچ ہوتی تو ان کے پہلے باپ دادا پر ہمارے عذاب کیوں آتے؟ رسولوں کی نافرمانی اور شرک و کفر پر مصر رہنے کی وجہ سے وہ روئے زمین سے ذلت کے ساتھ یوں ہٹا دیئے جاتے؟ اچھا تمہارے پاس اللہ کی رضا مندی کا کوئی سرٹیفکیٹ ہو تو پیش کرو۔

ہم تو دیکھتے ہیں کہ تم وہم پرست ہو فاسد عقائد پر جمے ہوئے ہو اور اٹکل پچو باتیں اللہ کے ذمے گھڑ لیتے ہو۔ وہ بھی یہی کہتے تھے تم بھی یہی کہتے ہو کہ ہم ان معبودوں کی عبادت اسلئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے ملا دیں حالانکہ وہ نہ ملانے والے ہیں نہ اس کی انہیں قدرت ہے، ان سے تو اللہ نے سمجھ بوجھ چھین رکھی ہے، ہدایت و گمراہی کی تقسیم میں بھی اللہ کی حکمت اور اس کی حجت ہے، سب کام اس کے ارادے سے ہو رہے ہیں وہ مومنوں کو پسند فرماتا ہے اور کافروں سے ناخوش ہے۔

فرمان ہے آیت «وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَي الْهُدٰي فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ» [6-الأنعام:35] ‏‏‏‏ ” اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو راہ حق پر جمع کر دیتا پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا “۔

اور آیت میں ہے «وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا» [10-یونس:99] ‏‏‏‏ ” اگر تیرے رب کی چاہت ہوتی تو سب لوگوں کو ایک ہی امت کر دیتا “۔

اور جگہ ہے «وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» [11-ھود:118، 119] ‏‏‏‏ ” یہ تو اختلاف سے نہیں ہٹیں گے سوائے ان لوگوں کے جن پر تیرا رب رحم کرے بلکہ انہیں اللہ نے اسی لیے پیدا کیا ہے تیرے رب کی یہ بات حق ہے کہ میں جنات اور انسان سے جہنم کو پر کر دونگا “۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ نافرمانوں کی کوئی حجت اللہ کے ذمہ نہیں بلکہ اللہ کی حجت بندوں پر ہے۔
2794

تم نے خواہ مخواہ اپنی طرف سے جانوروں کو حرام کر رکھا ہے ان کی حرمت پر کسی کی شہادت تو پیش کر دو۔ اگر یہ ایسی شہادت والے لائیں تو تو ان جھوٹے لوگوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانا۔ ان منکرین قیامت، منکرین کلام اللہ شریف کے جھانسے میں کہیں تم بھی نہ آ جانا۔
2795



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.