تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ[152]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور یتیم کے مال کے قریب نہ جائو، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے اور ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ ہم کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب بات کرو تو انصاف کرو خواہ رشتہ دار ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمھیں دیا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ [152]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وه اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول پوری پوری کرو، انصاف کے ساتھ، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتے۔ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو، گو وه شخص قرابت دار ہی ہو اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اس کو پورا کرو، ان کا اللہ تعالیٰ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو [152]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور خدا کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصحیت کرو [152]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 152،

یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ٭٭

ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ جب آیت «وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ» اور آیت «إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا» [4-النساء:10] ‏‏‏‏ نازل ہوئیں تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے کھانے پینے سے بالکل الگ تھلگ کردیا اس میں علاوہ ان لوگوں کے نقصان اور محنت کے یتیموں کا نقصان بھی ہونے لگا اگر بچ رہا تو یا تو وہ باسی کھائیں یا سڑ کر خراب ہو جائے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر ہوا تو آیت «وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ» [2-البقرة:220] ‏‏‏‏ نازل ہوئی کہ ” ان کے لیے خیر خواہی کرو ان کا کھانا پینا ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں وہ تمہارے بھائی ہیں “۔ اسے پڑھ کر سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کا کھانا اپنے ساتھ ملا لیا ۔ [سنن ابوداود:2871،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

یہ حکم ان کے سن بلوغ تک پہنچنے تک ہے گو بعض نے تیس سال بعض نے چالیس سال اور بعض نے ساٹھ سال کہے ہیں لیکن یہ سب قول یہاں مناسب نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
2807

پھر حکم فرمایا کہ ” لین دین میں، ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرو، ان کے لیے ہلاکت ہے جو لیتے وقت پورا لیں اور دیتے وقت کم دیں، ان امتوں کو اللہ نے غارت کر دیا جن میں یہ بد خصلت تھی “ -جامع ابو عیسیٰ ترمذی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپنے اور تولنے والوں سے فرمایا: تم ایک ایسی چیز کے والی بنائے گئے ہو، جس کی صحیح نگرانی نہ رکھنے والے تباہ ہو گئے - [سنن ترمذي:1217،قال الشيخ الألباني:موقوفاً صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے ” کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ہم نہیں لادتے “ یعنی اگر کسی شخص نے اپنی طاقت بھر کوشش کرلی دوسرے کا حق دے دیا، اپنے حق سے زیادہ نہ لیا، پھر بھی نادانستگی میں غلطی سے کوئی بات رہ گئی ہو تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کے یہ دونوں جملے تلاوت کرکے فرمایا کہ جس نے صحیح نیت سے وزن کیا، تولا، پھر بھی واقع میں کوئی کمی زیادتی بھول چوک سے ہو گئی تو اس کا مؤاخذہ نہ ہوگا ۔ [الدر المنشور للسیوطی:105/3:مرسل] ‏‏‏‏ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے۔
2808

پھر فرماتا ہے ” بات انصاف کی کہا کرو کہ قرابت داری کے معاملے میں ہی کچھ کہنا پڑے “ -جیسے فرمان ہے آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ» [5-المائدہ:8] ‏‏‏‏ اور سورۃ نساء میں بھی یہی حکم دیا کہ «يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّٰهِ» [4-النساء:135] ‏‏‏‏ ” ہر شخص کو ہر حال میں سچائی اور انصاف نہ چھوڑنا چاہیئے، جھوٹی گواہی اور غلط فیصلے سے بچنا چاہیئے “۔

اللہ کے عہد کو پورا کرو، اس کے احکام بجا لاؤ، اس کی منع کردہ چیزوں سے الگ رہو، اس کی کتاب اس کے رسول کی سنت پر چلتے رہو، یہی اس کے عہد کو پورا کرنا ہے، انہی چیزوں کے بارے اللہ کا تاکیدی حکم ہے، یہی فرمان تمہارے وعظ و نصیحت کا ذریعہ ہیں تاکہ تم جو اس سے پہلے نکمے بلکہ برے کاموں میں تھے، اب ان سے الگ ہو جاؤ۔ بعض کی قرأت میں «تَذَّكَـرُوْنَ» بھی ہے۔
2809



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.