تفسير ابن كثير



سورۃ الانعام

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ[160]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی اور جو برائی لے کر آئے گا سو اسے جزا نہیں دی جائے گی، مگر اسی کی مثل اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ [160]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ﻇلم نہ ہوگا [160]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جو کوئی (خدا کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسے ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا [160]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 160،

نیکی کا دس گنا ثواب اور غلطی کی سزا برابر برابر ٭٭

ایک اور آیت میں مجملاً یہ آیا ہے کہ «مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا» [27-النمل:89] ‏‏‏‏ ” جو نیکی لائے اس کیلئے اس سے بہتر بدلہ ہے “۔

اسی آیت کے مطابق بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوتی ہیں ایک میں ہے تمہارا رب عزوجل بہت بڑا رحیم ہے نیکی کے صرف قصد پر نیکی کے کرنے کا ثواب عطا فرما دیتا ہے اور ایک نیکی کے کرنے پر دس سے ساٹھ تک بڑھا دیتا ہے اور بھی بہت زیادہ اور بہت زیادہ اور اگر برائی کا قصد ہوا پھر نہ کرسکا تو بھی نیکی ملتی ہے اور اگر اس برائی کو کر گزرا تو ایک برائی ہی لکھی جاتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ اللہ معاف ہی فرما دے اور بالکل ہی مٹا دے سچ تو یہ ہے کہ ہلاکت والے ہی اللہ کے ہاں ہلاک ہوتے ہیں ۔ [صحیح بخاری:6491] ‏‏‏‏
2827

ایک حدیث قدسی میں ہے نیکی کرنے والے کو دس گنا ثواب ہے اور پھر بھی میں زیادہ کردیتا ہوں اور برائی کرنے والے کو اکہرا عذاب ہے اور میں معاف بھی کر دیتا ہوں زمین بھر تک جو شخص خطائیں لے آئے اگر اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا تو میں اتنی ہی رحمت سے اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو میری طرف بالشت بھر آئے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور جو ہاتھ بھر آئے میں اس کی طرف دو ہاتھ برھتا ہوں اور جو میری طرف چلتا ہوا آئے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا جاتا ہوں - [صحیح مسلم:2687] ‏‏‏‏

اس سے پہلے گزری ہوئی حدیث کی طرح ایک اور حدیث بھی ہے اس میں فرمایا ہے کہ برائی کا اردہ کر کے پھر اسے چھوڑ دینے والے کو بھی نیکی ملتی ہے اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے ڈر سے چھوڑ دے چنانچہ بعض روایات میں تشریح آ بھی چکی ہے۔ دوسری صورت چھوڑ دینے کی یہ ہے کہ اسے یاد ہی نہ آئے بھول بسر جائے تو اسے نہ ثواب ہے نہ عذاب کیونکہ اس نے اللہ سے ڈر کر نیک نیتی سے اسے ترک نہیں کیا اور اگر بد نیتی سے اس نے کوشش بھی کی اسے پوری طرح کرنا بھی چاہا لیکن عاجز ہو گیا کر نہ سکا موقعہ ہی نہ ملا اسباب ہی نہ بنے تھک کر بیٹھ گیا تو ایسے شخص کو اس برائی کے کرنے کے برابر ہی گناہ ہوتا ہے۔

چنانچہ حدیث میں ہے جب دو مسلمان تلواریں لے کر ایک دوسرے سے جنگ کریں تو جو مار ڈالے اور جو مار ڈالا جائے دونوں جہنمی ہیں لوگوں نے کہا مار ڈالنے والا تو خیر لیکن جو مارا گیا وہ جہنم میں کیوں جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس لیے کہ وہ بھی دوسرے کو مار ڈالنے کا آرزو مند تھا ۔ [صحیح بخاری:31] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نیکی کے محض ارادے پر نیکی لکھ لی جاتی ہے اور عمل میں لانے کے بعد دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں برائی کے محض ارادے کو لکھا نہیں جاتا اگر عمل کر لے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے اور اگر چھوڑ دے تو نیکی لکھی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس نے گناہ کے کام کو میرے خوف سے ترک کر دیا ۔ [ضعیف] ‏‏‏‏
2828

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی چار قسمیں ہیں اور اعمال کی چھ قسمیں ہیں۔ بعض لوگ تو وہ ہیں جنہیں دنیا اور آخرت میں وسعت اور کشادگی دی جاتی ہے بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں کشادگی ہوتی ہے اور آخرت میں تنگی بعض وہ ہیں جن پر دنیا میں تنگی رہتی ہے اور آخرت میں انہیں کشادگی ملے گی۔ بعض وہ ہیں جو دونوں جہان میں بدبخت رہتے ہیں یہاں بھی وہاں بھی بے آبرو، اعمال کی چھ قسمیں یہ ہیں دو قسمیں تو ثواب واجب کر دینے والی ہیں ایک برابر کا، ایک دس گنا اور ایک سات سو گنا۔ واجب کر دینے والی دو چیزیں وہ ہیں جو شخص اسلام و ایمان پر مرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو اس کیلئے جنت واجب ہے اور جو کفر پر مرے اس کیلئے جہنم واجب ہے اور جو نیکی کا ارادہ کرے گو کہ نہ ہو اسے ایک نیکی ملتی ہے اس لیے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے دل نے اسے سمجھا اس کی حرص کی اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اس کے ذمہ گناہ نہیں لکھا جاتا اور جو کر گذرے اسے ایک ہی گناہ ہوتا ہے اور وہ بڑھتا نہیں ہے اور جو نیکی کا کام کرے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں اور جو راہ اللہ عزوجل میں خرچ کرے اسے سات سو گنا ملتا ہے ۔ [سنن نسائی:3186،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
2829

فرمان ہے کہ جمعہ میں آنے والے لوگ تین طرح کے ہیں ایک وہ جو وہاں لغو کرتا ہے اس کے حصے میں تو وہی لغو ہے، ایک دعا کرتا ہے اسے اگر اللہ چاہے دے چاہے نہ دے -تیسرا وہ شخص ہے جو سکوت اور خاموشی کے ساتھ خطبے میں بیٹھتا ہے کسی مسلمان کی گردن پھلانگ کر مسجد میں آگے نہیں بڑھتا نہ کسی کو ایذاء دیتا ہے اس کا جمعہ اگلے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے بلکہ اور تین دن تک کے گناہوں کا بھی اس لیے کہ وعدہ الٰہی میں ہے آیت «مَنْ جَاءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا» [6-الأنعام:160] ‏‏‏‏ جو نیکی کرے اسے دس گنا اجر ملتا ہے ۔ [سنن ابوداود:1113،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏
2830

طبرانی میں ہے جمعہ جمعہ تک بلکہ اور تین دن تک کفارہ ہے اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے نیکی کرنے والے کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے - [طبرانی کبیر:3459:ضعیف و منقطع وله شواهد] ‏‏‏‏

فرماتے ہیں جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھے اسے سال بھر کے روزوں کا یعنی تمام عمر سارا زمانہ روزے سے رہنے کا ثواب دس روزوں کا ملتا ہے ۔ [سنن ترمذي:762،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ اس آیت میں حسنہ سے مراد کلمہ توحید ہے اور سیئہ سے مراد شرک ہے۔‏‏‏‏ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے لیکن اس کی کوئی صحیح سند میری نظر سے نہیں گذری۔ اس آیت کی تفسیر میں اور بھی بہت سی حدیثیں اور آثار ہیں لیکن ان شاءاللہ یہ ہی کافی ہیں۔
2831



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.