تفسير ابن كثير



سورہ فاتحہ کے نام:

اس سورت کا نام سورۂ «فاتحہ» ہے۔ «فاتحہ» کہتے ہیں شروع کرنے والی کو، چونکہ قرآن کریم میں سب سے پہلے یہی سورت لکھی گئی ہے، اس لئے اسے سورۂ «فاتحہ» کہتے ہیں اور اس لئے بھی کہ نمازوں میں قرأت بھی اسی سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا نام «أمُّ الْكِتَاب» بھی ہے، جمہور یہی کہتے ہیں۔

حسن اور ابن سرین رحمہ اللہ علیہم اس کے قائل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوح محفوظ کا نام «أمُّ الْكِتَاب» ہے۔ حسن رحمہ اللہ کا قول ہے کہ محکم آیتوں کو «أمُّ الْكِتَاب» کہتے ہیں۔

ترمذی کی ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» پوری سورت تک یہی سورت «ام القرآن» ہے اور «ام الکتاب» ہے اور «سبع مثانی» ہے اور «قرآن عظیم» ہے۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:4804] ‏‏‏‏

اس سورت کا نام سورت «الحمد» اور سورۃ «الصلوٰۃ» بھی ہے
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے میں نے صلوۃ (‏‏‏‏یعنی سورۂ فاتحہ) کو پنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔ جب بندہ کہتا ہے «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی ، پوری حدیث تک۔ [صحیح مسلم:395] ‏‏‏‏

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ کا نام «صلوۃ» بھی ہے، اس لیے کہ اس سورت کا نماز میں پڑھنا شرط ہے، اس سورت کا نام سورت «الشفاء» بھی ہے۔ دارمی میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ سورت فاتحہ ہر زہر کی شفا ہے اور اس کا نام سورت «الرقیہ» بھی ہے۔ [بیهقی فی شعب الایمان:2370:صحیح بالشواهد] ‏‏‏‏

سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے جب سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر اس سورت کو پڑھ کر دم کیا، وہ اچھا ہو گیا تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ یہ «رقیہ» ہے (‏‏‏‏یعنی پڑھ کر پھونکنے کی سورت ہے)؟ [صحیح بخاری:2276] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے «اساس القرآن» کہتے تھے یعنی قرآن کے جڑ یا بنیاد اس سورت کی بنیاد آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» ہے۔

سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں۔ اس کا نام «واقیہ» ہے، یحییٰ بن کثیر کہتے ہیں اس کا نام «کافیہ» بھی ہے اس لیے کہ یہ اپنے علاوہ سب کی کفایت کرتی ہے اور دوسری سورت اس سورت کی کفایت نہیں کرتی۔ بعض مرسل حدیثوں میں بھی یہ مضمون آیا ہے کہ ام القرآن بدل ہے اس کے غیر کا مگر اس کا غیر اس کا بدل نہیں۔ [دارقطنی:322/1] ‏‏‏‏

اسے سورۃ «الصلوٰۃ» اور سورۃ «الکنز» بھی کہا گیا ہے زمحشری کی تفسیر کشاف دیکھئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما، قتادہ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ یہ سورت مکی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، مجاہد، عطاء بن یسار اور زہری رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں، یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ایک قول ہے کہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ میں اور دوبارہ مدینہ میں لیکن پہلا قول ہی زیادہ ٹھیک ہے اس لئے کہ دوسری آیت میں ہے «وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْ‌آنَ الْعَظِيمَ» [15-الحجر:87] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے تمہیں سبع مثانی سات آیتیں دہرائی جانے والی دی ہیں “۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ابواللیث سمرقندی کا ایک قول قرطبی نے بھی نقل کیا ہے کہ اس سورت کا نصف تو مکہ شریف میں نازل ہوا اور آخری نصف حصہ مدینہ شریف میں نازل ہوا لیکن یہ قول بالکل غریب ہے۔ ان آیتوں کی نسبت اتفاق ہے کہ سات ہیں لیکن عمرو بن عبید نے آٹھ اور حسین جعفی نے چھ بھی کہا ہے اور یہ دونوں قول شاذ ہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.