تفسير ابن كثير



سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران کے فضائل:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: سورۃ بقرہ سیکھو، اس کو حاصل کرنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے۔ جادوگر اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر کچھ دیر چپ رہنے کے بعد فرمایا: سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران سیکھو، یہ دونوں نورانی سورتیں ہیں اپنے پڑھنے والے پر سائبان یا بادل یا پرندوں کے جھنڈ کی طرح قیامت کے روز سایہ کریں گی، قرآن پڑھنے والا جب قبر سے اٹھے گا تو دیکھے گا کہ ایک نوجوان نورانی چہرے والا شخص اس کے پاس کھڑا ہوا کہتا ہے کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں؟ یہ کہے گا نہیں، تو وہ جواب دے گا کہ میں قرآن ہوں جس نے دن کو تجھے بھوکا پیاسا رکھا تھا اور راتوں کو بستر سے دور بیدار رکھا تھا۔ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے لیکن آج سب تجارتیں تیرے پیچھے ہیں اب اس کے رہنے کے لئے سلطنت اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی اور ہمیشہ کے فائدے اس کے بائیں ہاتھ میں، اس کے سر پر وقار و عزت کا تاج رکھا جائے گا، اس کے ماں باپ کو دو ایسے عمدہ قیمتی حلے پہنائے جائیں گے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت کے سامنے ہیچ ہو گی، وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ آخر اس رحم و کرم اور اس انعام و اکرام کی کیا وجہ ہے؟ تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچے کے قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی وجہ سے تم پر یہ نعمت انعام کی گئی۔ پھر اسے کہا جائے گا پڑھتا جا اور جنت کے درجے چڑھتا جا، چنانچہ وہ پڑھتا جائے گا اور درجے چڑھتا جائے گا، خواہ ترتیل سے پڑھے یا بےترتیل۔ [مسند احمد:348/5:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن ماجہ میں بھی اس حدیث کا بعض حصہ مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه:3781،قال الشيخ الألباني:ضعیف یحتمل التحسین] ‏‏‏‏ اس کی اسناد حسن اور شرط مسلم پر ہیں۔ اس کے راوی بشر بن مہاجر سے امام مسلم رحمہ اللہ بھی روایت لیتے ہیں اور امام ابن معین رحمہ اللہ اسے ثقہ کہتے ہیں۔ نسائی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں امام احمد رحمہ اللہ اسے منکر الحدیث بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں میں نے تلاش کی تو دیکھا کہ وہ عجب عجب حدیثیں لاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی بعض احادیث سے اختلاف کیا جاتا ہے۔ ابوحاتم رازی کا فیصلہ ہے کہ اس کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ان کی ایسی روایتیں بھی ہیں جن کی متابعت نہیں کی جاتی۔ دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قوی نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی اس روایت کے بعض مضمون دوسری سندوں سے بھی آئے ہیں۔

مسند احمد میں ہے۔ قرآن پڑھا کرو یہ اپنے پڑھنے والوں کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا۔ دو نورانی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھتے رہا کرو۔ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ گویا یہ دو سائبان ہیں یا دو ابر ہیں یا پر کھولے پرندوں کی دو جماعتیں ہیں۔ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورہ بقرہ پڑھا کرو، اس کا پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت ہے، اس کی طاقت باطل والوں کو نہیں [صحیح مسلم:804] ‏‏‏‏ صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے۔

مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے قرآن اور قرآن پڑھنے والوں کو قیامت کے دن بلوایا جائے گا۔ آگے آگے سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران ہوں گی، بادل کی طرح یا سائے اور سائبان کی طرح یا پر کھولے پرندوں کے جھرمٹ کی طرح۔ یہ دونوں پروردگار سے ڈٹ کر سفارش کریں گی۔ [صحیح مسلم:805] ‏‏‏‏ مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں۔

ایک شخص نے اپنی نماز میں سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران پڑھی اس کے فارغ ہونے کے بعد سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں اللہ کا وہ نام ہے کہ اس نام کے ساتھ جب کبھی اسے پکارا جائے وہ قبول فرماتا ہے۔ اب اس شخص نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ مجھے بتائیے وہ نام کون سا ہے؟ سیدنا کعب نے اس سے انکار کیا اور فرمایا اگر میں بتا دوں تو خوف ہے کہ کہیں تو اس نام کی برکت سے ایسی دعا نہ مانگ لے جو میری اور تیری ہلاکت کا سبب بن جائے۔

سیدنا ابوامامہ فرماتے ہیں تمہارے بھائی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ گویا لوگ ایک بلند و بالا پہاڑ پر چڑھ رہے ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر دو سرسبز درخت ہیں اور ان میں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ کیا تم میں کوئی سورۃ بقرہ کا پڑھنے والا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی سورۃ آل عمران کا پڑھنے والا ہے؟ جب کوئی کہتا ہے کہ ہاں تو وہ دونوں درخت اپنے پھلوں سمیت اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور یہ اس کی شاخوں پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اسے اوپر اٹھا لیتے ہیں۔

سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ ایک قرآن پڑھے ہوئے شخص نے اپنے پڑوسی کو مار ڈالا پھر قصاص میں وہ بھی مارا گیا۔ پس قرآن کریم ایک ایک سورت ہو ہو کر الگ ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اس کے پاس سورۃ آل عمران اور سورۃ بقرہ رہ گئیں۔ ایک جمعہ کے بعد سورۃ آل عمران چلی گئی پھر ایک جمعہ گزرا تو آواز آئی کہ میری باتیں نہیں بدلا کرتیں اور میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ [50-ق:29] ‏‏‏‏ چنانچہ یہ مبارک سورت یعنی سورۃ بقرہ بھی اس سے الگ ہو گئی مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں اس کی طرف سے بلاؤں اور عذاب کی آڑ بنی رہیں اور اس کی قبر میں اس کی دلجوئی کرتی رہیں اور سب سے آخر اس کے گناہوں کی زیادتی کے سبب ان کی سفارش نہ چلی۔ یزید بن اسود جرشی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو دن میں پڑھنے والا دن بھر میں نفاق سے بری رہتا ہے اور رات کو پڑھنے والا ساری رات نفاق سے بری رہتا ہے خود یزید رحمہ اللہ اپنے معمولی وظیفہ قرآن کے علاوہ ان دونوں سورتوں کو صبح شام پڑھا کرتے تھے۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص ان دونوں سورتوں کو رات بھر پڑھتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ فرماں برداروں میں شمار ہو گا۔ اس کی سند منقطع ہے۔

صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کو ایک رکعت میں پڑھا۔ [صحیح مسلم:772] ‏‏‏‏



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.