تفسير ابن كثير



«بسم الله الرحمن الرحيم» مختلف اقوال اور سورہ فاتحہ :

«بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» یہ سورت کی مستقل آیت ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ تمام کوفی قاری اور صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین رحمہ اللہ کی ایک جماعت اور پچھلے بہت سے بزرگ تو اسے سورہ فاتحہ کے اول کی ایک پوری اور مستقل آیت کہتے ہیں، بعض اسے اس کا جزو مانتے ہیں اور بعض سرے سے اس آیت کو اس کے شروع میں مانتے ہی نہیں، جیسے کہ مدینے شریف کے قاریوں اور فقیہوں کے یہ تینوں قول ہیں۔ اس کی تفصیل ان شاءاللہ آگے آئے گی۔ اس سورت کے کلمات پچیس ہیں اور حروف ایک سو تیرہ ہیں۔ امام بخاری کتاب التفسیر کے شروع میں صحیح بخاری میں لکھتے ہیں «ام الكتاب» اس سورت کا نام اس لئے ہے کہ قرآن شریف کی کتابت اسی سے شروع ہوتی ہے [صحیح بخاری:قبل الحدیث:4474] ‏‏‏‏ اور نماز کی قراءت بھی اسی سے شروع ہوتی ہے۔‏‏‏‏

ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ تمام قرآن شریف کے مضامین اجمالی طور سے اس میں ہیں، اس لئے اس کا نام «ام الكتاب» ہے۔ عرب کی عادت ہے کہ ہر ایک جامع کام اور کام کی جڑ کو جس کی شاخیں اور اجزاء اسی کے تابع ہوں، «ام» کہتے ہیں۔

دیکھئے «ام الراس» اس جلد کو کہتے ہیں جو دماغ کی جامع ہے اور لشکری جھنڈے اور نشان کو بھی جس کے نیچے لوگ جمع ہوتے ہیں «ام» کہتے ہیں۔ شاعروں میں بھی اس کا ثبوت پایا جاتا ہے۔ مکہ شریف کو «ام القري» کہنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ یہ سب سے پہلے اور سب کا جامع ہے، زمین وہیں سے پھیلائی گئ ہے [تفسیر ابن جریر الطبری:107/1] ‏‏‏‏

چونکہ اس سے نماز کی قراءت شروع ہوتی ہے۔ قرآن شریف کو لکھتے وقت بھی صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسی کو پہلے لکھا اس لیے اسے فاتحہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ایک صحیح نام «سبع مثاني» بھی ہے اس لیے کہ یہ بار بار نماز میں پڑھی جاتی ہے۔ ہر رکعت میں اسے پڑھا جاتا ہے اور «مثاني» کے معنی اور بھی ہیں جو ان شاءاللہ تعالی اپنی جگہ بیان ہوں گے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

مسند احمد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام القرآن کے بارے میں فرمایا: یہ ام القرآن ہے، یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے ، [مسند احمد:448/2:صحیح] ‏‏‏‏

ایک اور حدیث میں ہے یہی ام القرآن ہے، یہی فاتحہ الکتاب ہے اور یہی سبع مثانی ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:134:صحیح] ‏‏‏‏

تفسیر مردویہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» کی سات آیتیں ہیں۔ «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» بھی ان میں سے ایک آیت ہے، اسی کا نام سبع مثانی ہے، یہی قرآن عظیم ہے، یہی ام الکتاب ہے یہی فاتحتہ الکتاب ہے ۔ [دارقطنی:312/1:ضعیف] ‏‏‏‏ دارقطنی میں بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث ہے اور بقول امام دارقطنی اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔

بیہقی میں ہے کہ سیدنا علی، سیدنا ابن عباس، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے سبع مثانی کی تفسیر میں یہی کہا ہے کہ یہ سورۂ فاتحہ ہے اور «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» اس کی ساتویں آیت ہے۔ «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» کی بحث میں یہ بیان پورا آئے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ نے سورہَ فاتحہ کو اپنے لکھے ہوئے قرآن شریف کے شروع میں کیوں نہیں لکھا؟ تو کہا اگر میں ایسا کرتا تو پھر ہر سورت کے پہلے اس کو لکھتا۔ ابوبکر بن ابوداؤد فرماتے ہیں اس قول کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے جانے کی حیثیت سے اور چونکہ تمام مسلمانوں کو حفظ ہے، اس لیے لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

دلائل النبوۃ میں امام بیہقی نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ یہ سورت سب سے پہلے نازل ہوئی، باقلانی نے نقل کیا ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ سب سے پہلے نازل ہوئی اور دوسرا قول یہ ہے کہ «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ‌» [74-المدثر:1] ‏‏‏‏ سب سے پہلے نازل ہوئی جیسا کہ صحیح حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے «اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ» [96-العلق:1] ‏‏‏‏ نازل ہوئی اور یہی صحیح ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ «ان شاء اللہ»



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.