تفسير ابن كثير



سورہ فاتحہ کی فضیلت :

مسند احمد میں سیدنا ابوسعید بن معلیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب نماز سے فارغ ہو کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تک کس کام میں تھے؟، میں کہا: یا رسول اللہ ! میں نماز میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالی کا یہ فرمان تم نے نہیں سنا؟ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» [8-الأنفال:24] ‏‏‏‏ ” اے ایمان والو! اللہ کے رسول جب تمہیں پکاریں، تم جواب دو “، اچھا سنو! میں تمھیں مسجد سے نکلنے سے پہلے بتلا دوں گا کہ قرآن پاک میں سب سے بڑی سورت کونسی ہے؟ پھر میرا ہاتھ پکڑے ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ یاد دلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھ کو دیا گیا ہے ۔ اسی طرح یہ روایت صحیح بخاری شریف، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی دوسری سندوں کے ساتھ ہے۔ [صحیح بخاری:4474] ‏‏‏‏

واقدی نے یہ واقعہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان کیا ہے۔ موطا مالک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو آواز دی، وہ نماز میں مشغول تھے، فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا، اس وقت مسجد سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے تجھے ایسی سورت بتاؤں کہ تورات، انجیل اور قرآن میں اس کے مثل نہیں۔‏‏‏‏ اب میں نے اپنی چال سست کر دی اور پوچھا، یا رسول اللہ ! وہ سورت کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کے شروع میں تم کیا پڑھتے ہو؟ میں کہا «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» پوری سورت تک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی وہ سورت ہے، سبع مثانی اور قرآنی عظیم جو مجھے دیا گیا ہے ۔ [مسند احمد:412/2:صحیح] ‏‏‏‏

اس حدیث کے آخری راوی ابوسعید رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس بنا پر ابن اثیر اور ان کے ساتھ والے یہاں دھوکا کھا گئے ہیں اور وہ انہیں ابوسعید بن معلٰی سمجھ بیٹھے ہیں۔ درحقیقت یہ ابوسعید خزاعی رحمہ اللہ ہیں اور تابعین میں سے ہیں اور وہ ابوسعید انصاری صحابی ہیں رضی اللہ عنہ۔ ان کی حدیث متصل اور صحیح ہے اور یہ حدیث بظاہر منقطع معلوم ہوتی ہے۔ اگر ابوسعید تابعی کا سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت نہ ہو اور اگر سننا ثابت ہو تو یہ حدیث شرط مسلم پر ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

اس حدیث کے اور بھی بہت سے انداز بیان ہیں، مثلاً مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں پکارا تو یہ نماز میں تھے “ التفات کیا، مگر جواب نہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پکارا، سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے نماز مختصر کر دی اور فارغ ہو کر جلدی سے حاضر خدمت ہوئے السلام علیکم عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دے کر فرمایا: ابی! تم نے مجھے جواب کیوں نہ دیا؟ کہا یا رسول اللہ ! میں نماز میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی آیت پڑھ کر فرمایا: کیا تم نے یہ آیت نہیں سنی؟ کہا اے اللہ کے رسول ! غلطی ہوئی اب ایسا نہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک ایسی سورت بتاؤں کہ تورات، انجیل، زبور اور قرآن میں اس جیسی سورت نہ ہو۔‏‏‏‏ میں کہا ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں سے جانے سے پہلے ہی میں تمہیں بتادوں گا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ تھامے ہوئے اور باتیں کرتے رہے اور میں نے اپنی چال دھیمی کر دی کہ ایسا نہ ہو کہ وہ بات رہ جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر چلے جائیں۔ آخر جب دروازے کے قریب پہنچ گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ وعدہ یاد دلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں کیا پڑھتے ہو؟، میں نے ام القرآن پڑھ کو سنائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تورات، انجیل، زبور اور قرآن میں اس جیسی کوئی اور سورت نہیں، یہ سبع مثانی ہے ۔ [مسند احمد:413/2:صحیح] ‏‏‏‏

ترمذی میں مزید یہ بھی ہے کہ یہی وہ بڑا قرآن ہے جو مجھے عطا فرمایا گیا ہے ، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي:2875،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بھی اس باب میں ایک حدیث مروی ہے۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1499:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد کی ایک مطول حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے۔ نسائی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یہ سورت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تقسیم کر دی گئی ہے ۔ ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي:3125،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

مسند احمد میں سیدنا عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت استنجے سے فارغ ہوئے ہی تھے، میں نے تین مرتبہ سلام کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بھی جواب نہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور میں غم و رنج کی حالت میں مسجد میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد طہارت کر کے تشریف لائے اور تین مرتبہ ہی میرے سلام کا جواب دیا۔ پھر فرمایا: اے جابر بن عبداللہ سنو! تمام قرآن میں بہترین سورت «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» آخر تک ہے ۔ [مسند احمد:177/4:صحیح بالشواهد] ‏‏‏‏ اس کی اسناد بہت عمدہ ہے۔ ابن عقیل جو اس کا راوی ہے، اس کی حدیث بڑے بڑے ائمہ روایت کرتے ہیں اور عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہ سے مراد عبدی صحابی ہیں، ابن الجوزی کا بھی یہی قول ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

حافظ ابن عساکر کا قول ہے کہ یہ عبداللہ بن جابر انصاری و بیاضی ہیں یہ حدیث اور اس جیسی اور احادیث سے استدلال کر کے اسحاق بن راہویہ، ابوبکر بن عربی ابن الحضار وغیرہ اکثر علماء نے کہا ہے کہ بعض آیتیں اور بعض سورتیں بعض پر فضیلت رکھتی ہیں۔‏‏‏‏

یہی ایک دوسری جماعت کا بھی خیال ہے کہ کلام اللہ کل کا کل فضیلت میں ایک سا ہے۔ ایک کو ایک پر فضیلت دینے سے یہ قباحت ہوتی ہے کہ دوسری آیتیں اور سورتیں اس سے کم درجہ کی نظر آئیں گی حالانکہ کلام اللہ سارے کا سارا فضیلت والا ہے۔ قرطبی نے اشعری اور ابوبکر باقلانی اور ابوحاتم ابن حبان بستی اور ابوحبان اور یحییٰ رحمہ اللہ علیہم سے یہی نقل کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت ہے۔ یہ مذہب منقول ہے (‏‏‏‏لیکن صحیح اور مطابق حدیث پہلا قول ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم)

سورۂ فاتحہ کے فضائل کی مندرجہ بالاحدیثوں کے علاوہ اور حدیثیں بھی ہیں۔ صحیح بخاری شریف فضائل القرآن میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ سفر میں ایک جگہ اترے ہوئے تھے۔ ناگہاں ایک لونڈی آئی اور کہا کہ یہاں کے قبیلہ کے سردار کو سانپ نے کاٹ کھایا ہے، ہمارے آدمی یہاں موجود نہیں، آپ میں سے کوئی ایسا ہے کہ جھاڑ پھونک کر دے؟ ہم میں سے ایک شخص اٹھ کر اس کے ساتھ ہو لیا ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کچھ جھاڑ پھونک بھی جانتا ہے۔ اس نے وہاں جا کر کچھ پڑھ کر دم کر دیا اللہ کے فضل سے وہ بالکل اچھا ہو گیا، تیس بکریاں اس نے دیں اور ہماری مہمانی کے لیے دودھ بھی بہت سارا بھیجا۔ جب وہ واپس آئے تو ہم نے پوچھا: کیا تمہیں جھاڑ پھونک کا علم تھا؟ اس نے کہا میں نے تو صرف سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے ہم نے کہا: اس آئے ہوئے مال کو ابھی نہ چھیڑو، پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھ لو۔ مدینہ میں آ کر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کیسے معلوم ہوا کہ یہ پڑھ کر دم کرنے کی سورت ہے؟ فرمایا: اس مال کے حصے کر لو میرا بھی ایک حصہ لگانا ۔ صحیح مسلم شریف اور ابوداوَد میں یہ حدیث ہے۔ [صحیح بخاری:2276] ‏‏‏‏

مسلم کی بعض روایتوں میں ہے کہ دم کرنے والے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ مسلم اور نسائی میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے کہ اوپر سے ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ جبرئیل علیہ السلام نے اوپر دیکھ کر فرمایا آج آسمان کا وہ دروازہ کھلا ہے جو کبھی نہیں کھلا تھا۔ پھر وہاں سے ایک فرشتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا خوش ہو جائیے دو نور آپ کو ایسے دیے گئے ہیں کہ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ایک ایک حرف پر نور ہے ۔ [صحیح مسلم:806] ‏‏‏‏

صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی نماز میں ام القرآن نہ پڑھے اس کی نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں ہے۔‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ جب امام کے پیچھے ہوں تو؟ فرمایا: پھر بھی چپکے چپکے پڑھ لیا کرو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ” میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے نصف نصف کر دیا ہے اور میرا بندہ مجھ سے جو مانگتا ہے وہ میں دیتا ہوں “۔ جب بندہ کہتا ہے «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ» تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «حمدني عبدي» ” میرے بندے نے میری تعریف کی “۔ پھر بندہ کہتا ہے «الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ» اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «أثنى علي عبدي» میرے بندے نے میری ثناء بیان کی “۔ پھر بندہ کہتا ہے «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «مجدني عبدي» یعنی میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی “۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے، «فوض إلي عبدي» یعنی ” میرے بندے نے خود کو میرے سپرد کر دیا “۔ پھر بندہ کہتا ہے «إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” یہ ہے میرے اور میرے بندے کے درمیان اور میرا بندہ مجھ سے جو مانگے گا، میں دوں گا “۔ پھر بندہ «وَلَا الضَّالِّينَ» تک پڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” یہ سب میرے بندے کے لیے ہے اور یہ جو مانگے گا وہ اس کے لیے ہے “ ۔ [صحیح مسلم:395] ‏‏‏‏

نسائی میں یہ روایت ہے۔ بعض روایات کے الفاظ میں کچھ تبدیلی بھی ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ [سنن ترمذي:2953،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ ابورزعہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث مطول موجود ہے۔ [مسند احمد:282/2] ‏‏‏‏ اس کے راوی سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔

ابن جریر کی ایک روایت میں حدیث کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ” یہ میرے لئے ہے اور جو باقی ہے وہ میرے بندے کے لئے ہے “ ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:224:حسن] ‏‏‏‏ یہ حدیث غریب ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.