تفسير ابن كثير



اعوذ باللہ کی تفسیر اور اس کے احکام :

قرآن پاک میں ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ‌ بِالْعُرْ‌فِ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ» [7-الأعراف:199-200] ‏‏‏‏ یعنی ” در گزر کرنے کی عادت رکھو، بھلائی کا حکم کیا کرو اور جاہلوں سے منہ موڑ لیا کرو، اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آ جائے تو اللہ تعالیٰ سننے والے، جاننے والے کے ذریعہ پناہ طلب کر لیا کرو “۔

اور جگہ فرمایا «ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ وَقُل رَّ‌بِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَعُوذُ بِكَ رَ‌بِّ أَن يَحْضُرُ‌ونِ» [23-المؤمنون:98-96] ‏‏‏‏ ” برائی کو بھلائی سے ٹال دو، ہم ان کے بیانات کو خوب جانتے ہیں۔ کہا کرو کہ اللہ شیطان کے وسوسوں اور ان کی حاضری سے ہم تیری مدد کے ذریعہ پناہ چاہتے ہیں “۔

اور جگہ ارشاد ہوتا ہے «دْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ» [41-فصلت:34-36] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” بھلائی کے ساتھ دفع کرو، تم میں اور جس دوسرے شخص میں عداوت ہو گی، وہ ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست، یہ کام صبر کرنے والوں اور نصیب والوں کا ہے، جب شیطانی وسوسہ آ جائے تو اللہ تعالی سننے والے جاننے والے کے ذریعہ پناہ چاہو “۔

یہ تین آیتیں ہیں اور اس معنی کی کوئی اور آیت نہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان آیتوں میں حکم فرمایا ہے کہ انسانوں میں سے جو تمہاری دشمنی کرے، اس کی دشمنی کا علاج یہ ہے کہ اس کے ساتھ سلوک و احسان کرو تاکہ اس کی انصاف پسند طبیعت خود اسے شرمندہ کرے اور وہ تمہاری دشمنی سے نہ صرف باز رہے بلکہ تمہارا بہترین دوست بن جائے۔ اور شیاطین کی دشمنی سے محفوظ رہنے کے لئے اس نے اپنے ذریعہ پناہ لینی سکھائی۔ کیونکہ یہ پلید دشمن سلوک اور احسان سے بھی قبضہ میں نہیں آتا۔ اسے تو انسان کی تباہی اور بربادی میں ہی مزہ آتا ہے اور اس کی پرانی عداوت باوا آدم علیہ السلام کے وقت سے ہے۔

قرآن فرماتا ہے «يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَ‌جَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ» [7-الأعراف:27] ‏‏‏‏ ” اے بنی آدم! دیکھو کہیں شیطان تمہیں بھی بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا “۔

اور جگہ فرمایا کہ «إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ‌» [35-فاطر:6] ‏‏‏‏ ” شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھو، وہ اپنی جماعت کو اس لیے بلاتا ہے کہ وہ جہنمی ہو جائیں “۔

اور جگہ فرمایا «أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّ‌يَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا» [18-الكهف:50] ‏‏‏‏ ” کیا تم اس شیطان سے اور اس کی ذریات سے دوستی کرتے ہو مجھے چھوڑ کر؟ وہ تو تمہارا دشمن ہے یاد رکھو ظالموں کے لئے برا بدلہ ہے “۔

یہی ہے جس نے قسم کھا کر ہمارے باپ آدم علیہ السلام سے کہا تھا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں تو اب خیال کر لیجئے کہ ہمارے ساتھ اس کا کیا معاملہ ہو گا؟ ہمارے لئے تو وہ حلف اٹھا کر آیا ہے۔

فرمان ہے «فَإِذَا قَرَ‌أْتَ الْقُرْ‌آنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ» [16-النحل:98-99] ‏‏‏‏ ” جب قرآن کی تلاوت کرو تو اللہ تعالیٰ کے ذریعہ پناہ طلب کر لیا کرو۔ شیطان راندھے ہوئے سے، ایماندار، توکل والوں پر اس کا کوئی زور نہیں، اس کا زور تو انہی پر ہے جو اس سے دوستی رکھیں اور اس کو اللہ کے ساتھ شریک کریں “۔

قاریوں کی ایک جماعت تو کہتی ہے کہ قرآن پڑھ چکنے کے بعد اعوذ پڑھنی چاہیے، اس میں دو فائدے ہیں ایک تو قرآن کے طرز بیان پر عمل“ دوسرے عبادت کے بعد کے غرور کا توڑ۔ ابوحاتم سجستانی نے اور ابن فلوفا نے حمزہ کا یہی مذہب نقل کیا ہے۔ جیسے کہ ابوالقاسم یوسف بن علی بن جنادہ نے اپنی کتاب العبادۃ الکامل میں بیان کیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے لیکن سند غریب ہے۔ رازی نے اپنی تفسیر میں اسے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ابراہیم نخعی داؤد ظاہری کا بھی یہی قول ہے۔ قرطبی نے امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب بھی یہی بیان کیا ہے لیکن ابن العربی اسے غریب کہتے ہیں۔

ایک مذہب یہ بھی ہے کہ اول و آخر دونوں مرتبہ اعوذ پڑھے تاکہ دونوں دلیلیں جمع ہو جائیں اور جمہور علماء کا مشہور مذہب یہ ہے کہ تلاوت سے پہلے اعوذ پڑھنا چاہیے تاکہ وسوسے دور ہو جائیں تو ان بزرگوں کے نزدیک آیت کے معنی جب پڑھے تو یعنی جب پڑھنا چاہے تو ہو جائیں گے جیسے کہ آیت «إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ» [5-المائدة:6] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو “ (‏‏‏‏تو وضو کر لیا کرو) “ کے معنی ” جب تم نماز کے لئے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو “، کے ہیں۔ حدیثوں کی رو سے بھی یہی معنی ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔

مسند احمد کی حدیث میں ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو «اﷲُ اَکْبَرُ» کہہ کر نماز شروع کرتے۔ پھر فرماتے «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ» پڑھ کر تین مرتبہ «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» پڑھتے پھر فرماتے «أَعُوذُ بالله من الشيْطانِ الرجِيمِ من هَمْزِهِ، ونَفْثِهِ، ونَفْخِهِ» سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس باب میں سب سے زیادہ مشہور یہی ہے۔

«هَمْزِهِ» کے معنی گلا گھوٹنے کے اور «ونَفْخِهِ» کے معنی تکبر اور «ونَفْثِهِ» کے معنی شعر گوئی کے ہیں۔

ابن ماجہ کی ایک روایت میں یہی معنی بیان کیے گئے ہیں اور اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں داخل ہوتے ہی تین مرتبہ «اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا»، تین مرتبہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرً» اور تین مرتبہ «سُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا» پڑھتے پھر یہ پڑھتے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ» ابن ماجہ میں اور سند کے ساتھ یہ روایت مختصر بھی آئی ہے ۔

مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تین مرتبہ تکبیر کہتے۔ پھر تین مربتہ «سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ» کہتے پھر «اعُوذُ بِاللّهِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِِ» آخر تک پڑھتے ۔

مسند ابویعلی میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو شخص لڑنے جھگڑنے لگے۔ غصہ کے مارے ایک کے نتھنے پھول گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ «اعُوذُ بِاللّهِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِِ» کہہ لے تو اس غصہ بھی جاتا رہا رہے ۔ نسائی نے اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں بھی اسے روایت کیا ہے۔ مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے۔

اس کی ایک روایت میں اتنی زیادتی اور بھی ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے اس کے پڑھنے کو کہا لیکن اس نے نہ پڑھا اور اس کا غصہ بڑھتا ہی گیا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ یہ زیادتی والی روایت مرسل ہے اس لئے کہ عبدالرحمٰن ابولیلٰی جو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کرتے ہیں، ان کا سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنا ثابت نہیں بلکہ معاذ ان سے بیس برس پہلے فوت ہو چکے تھے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ شاید عبدالرحمٰن نے سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا ہو۔ وہ بھی اس حدیث کے راوی ہیں اور اسے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ تک پہنچایا ہو کیونکہ اس واقعہ کے وقت تو بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداوَد، نسائی میں بھی مختلف سندوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے۔

استعاذہ کے متعلق اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں، یہاں سب کو جمع کرنے سے طول ہو گا۔ ان کے بیان کے لئے اذکار و وظائف“ فضائل و اعمال کے بیان کی کتابیں ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ایک روایت میں ہے کہ جبرئیل علیہ السلام جب سب سے پہلے وحی لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پہلے اعوذ پڑھنے کا کہا۔ تفسیر ابن جریر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پہلے پہل جب جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا اعوذ پڑھیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اَسْتَعِذْ بِاللَّـهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ»، پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا: کہیے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پھر کہا «اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ» [96-العلق:1] ‏‏‏‏ ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، سب سے پہلے سورت جو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کی معرفت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی، یہی ہے ۔ لیکن یہ اثر غریب ہے اور اس کی اسناد میں ضعف اور انقطاع ہے۔ ہم نے اسے صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ معلوم رہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.