تفسير ابن كثير



فصل :

اعوذ پڑھنا اللہ تعالیٰ کی طرف التجا کرنا ہے اور ہر برائی والے کی برائی سے اس کے دامن میں پناہ طلب کر آتا ہے

«اسْتِعَاذَةُ» کے معنی برائی کے دفع کرنے کے ہیں اور «الْعِيَاذَةُ» کے معنی بھلائی حاصل کرنے کے ہیں الْمُتَنَبِّي کا شعر ہے «يَا مَنْ أَلُوذُ بِهِ فِيمَا أُؤَمِّلُهُ وَمَنْ أَعُوذُ بِهِ مِمَّنْ أُحَاذِرُهُ» «لَا يَجْبُرُ النَّاسُ عَظْمًا أَنْتَ كَاسِرُهُ» *** «وَلَا يَهِيضُونَ عَظْمًا أَنْتَ جَابِرُهُ»

اے وہ پاک ذات جس سے میری تمام امیدیں وابستہ ہیں اور اے وہ پروردگار تمام برائیوں سے میں اس کی مدد کے ذریعہ پناہ لیتا ہوں، جسے وہ توڑے، اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے وہ جوڑ دے، اسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔

اعوذ کے معنی یہ ہیں کہ میں اللہ تعالٰی کی مدد کے ذریعہ پناہ لیتا ہوں کہ شیطان رجیم مجھے دین و دنیا میں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے۔ جن احکام کی بجاآوری کا مجھے حکم ہے ایسا نہ ہو کہ میں ان سے رک جاوَں اور جن کاموں سے مجھ کو منع کیا گیا ہے، ایسا نہ ہو کہ مجھ سے وہ بدافعال سرزد ہو جائیں، کہ ظاہر ہے کہ شیطان سے بچانے والا سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔ اسی لئے پروردگار عالم نے انسانوں کے شر سے محفوظ رہنے کی تو ترکیب سلوک و احسان وغیرہ بتلائی اور شیطان کے شر سے بچنے کی صورت یہ بتلائی کہ ہم اس ذات پاک کے ذریعہ پناہ طلب کریں۔ اس لیے کہ نہ تو اسے رشوت دی جا سکے، نہ وہ بھلائی اور سلوک کے سبب اپنی شرارت سے باز آئے۔ اس کی برائی سے بچانے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تینوں پہلی آیتوں میں یہ مضمون گزر چکا ہے۔

سورہ اعراف میں ہے «خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ» [7-الأعراف:199] ‏‏‏‏ الخ

اور سورہ مؤمنون میں ہے «ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ» [23-المؤمنون:96-98] ‏‏‏‏ الخ

اور سورہَ حم سجدہ میں ہے «وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» [41-فصلت:34-36] ‏‏‏‏ الخ

ان تینوں آیتوں کا مفصل بیان اور ترجمہ پہلے گزر چکا ہے۔

لفظ شیطان «شَطَنَ» سے بنا ہے۔ اس کے لفظی معنی دوری کے ہیں چونکہ یہ مردود بھی انسانی طبیعت سے دور ہے بلکہ ہر بھلائی سے بعید ہے، اس لئے اسے شیطان کہتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ «شَاطَ» سے مشتق ہے اس لیے کہ وہ آگ سے پیدا شدہ ہے اور «شاط» کے معنی یہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ معنی کی رو سے تو دونوں ٹھیک ہیں لیکن اول زیادہ صحیح ہے۔

عرب شاعروں کے شعر بھی اس کی تصدیق میں کہے گئے ہیں۔ امیہ بن ابوصلت اور نابغہ کے شعروں میں بھی یہ لفظ «شطن» سے مشتق ہے جو دور ہونے کے معنی میں مستعمل ہے۔

سیبویہ کا قول ہے کہ جب کوئی شیطان کام کرے تو عرب کہتے ہیں «تَشَيْطَنَ فُلَانٌ»، یہ نہیں کہتے کہ «تَشَيَّطَ فُلَانٌ» اس سے ثابت ہوتا ہے یہ لفظ «شاط» سے نہیں بلکہ «شطن» سے ماخوذ ہے اور اس کے صحیح معنی بھی دوری کے ہیں، جو جن و انس و حیوان سرکشی کرے اسے شیطان کہہ دیتے ہیں۔

قرآن پاک میں ہے «وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا» [6-الأنعام:112] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیاطین جن و انس کئے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کو دھوکے کی بناوٹی باتیں پہنچاتے رہتے ہیں “۔

مسند احمد میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: اے ابوذر! جنات اور انسان کے شیطانوں سے اللہ تعالی کی مدد کے ذریعہ پناہ طلب کرو، میں کہا: کیا انسان میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۔

صحیح مسلم شریف میں ان ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کو عورت، گدھا اور کالا کتا توڑ دیتا ہے۔ میں کہا: یا رسول اللہ ! سرخ، زرد کتوں میں سے کالے کتے کی تخصیص کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کالا کتا شیطان ہے ۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ترکی گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں وہ ناز و خرام سے چلتا ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے مارتے پیٹتے بھی ہیں لیکن اس کا اکڑنا اور بھی بڑھ جاتا ہے، آپ اتر پڑتے ہیں اور فرماتے ہیں تم تو میری سواری کے لئے کسی شیطان کو پکڑ لائے، میرے نفس میں تکب آنے لگا، چنانچہ میں نے اسی سے اتر پڑنا ہی مناسب سمجھا۔

«رَّجِيمُ»، «فَعِيلٌ» کے وزن پر مفعول کے معنی میں ہے یعنی وہ محروم ہے یعنی ہر بھلائی سے دور ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ» [67-الملك:5] ‏‏‏‏، ” ہم نے دنیا کے آسمانوں کو ستاروں سے مزین کیا اور انہیں شیطانوں کے لئے رجم بنایا “۔

«إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ» [37-الصافات:6-10] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے آسمان دنیا کو تاروں سے زینت دی اور ہر سرکش شیطان سے بچاؤ بنایا۔ وہ اعلیٰ فرشتوں کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے مارے جاتے ہیں بھگانے کے لئے اور لازمی عذاب ان کے لئے ہے جو ان میں سے کوئی بات اچک کر بھاگتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک چمکیلا شعلہ لگ جاتا ہے “۔

اور جگہ ارشاد ہے «وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ» [15-الحجر:16-18] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کے لئے زینت دی اور اسے ہر راندے ہوئے شیطان سے ہم نے محفوظ کر لیا مگر جو کسی بات کو چرا لے جائے، اس کے پیچھے چمکتا ہوا شعلہ لگتا ہے “۔ اسی طرح کی اور آیتیں بھی ہیں۔

«رَجِيمٌ» کے ایک معنی «رَاجِمٍ» کے بھی کئے گئے ہیں۔ چونکہ شیطان لوگوں کو وسوسوں سے اور گمراہیوں سے رجم کرتا ہے، اس لئے اسے «رَجِيمٌ» یعنی «رَاجِمٍ» کہتے ہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.