تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 16) فَاَعْرَضُوْا: یعنی انھوں نے انابت و رجوع کے بجائے اعراض اور سرکشی کو اور بندگی اور شکرگزاری کے بجائے کفر اور ناشکری کو اختیار کیا اور پیغمبروں اور نیکی کا حکم کرنے والوں کی نصیحتوں سے منہ موڑ لیا۔

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ: الْعَرِمِ عَرِمَةٌ کی جمع ہے، تہ بہ تہ پتھر، مراد پتھروں کا بنا ہوا بند ہے۔ یعنی ان کی سرکشی اور اعراض کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بند کا سیلاب بھیجا۔ زور دار مسلسل بارشوں سے اتنا پانی جمع ہوا کہ اس کے سامنے بند ٹھہر نہ سکا اور ٹوٹ پھوٹ گیا۔ پانی کی شدت اتنی تھی کہ باقی بند بھی ٹوٹتے چلے گئے اور سارا قابل کاشت علاقہ زیر آب آگیا۔ پانی کے ریلے سے باغ اور کھیت ہی تباہ نہیں ہوئے بلکہ زمین بھی کٹاؤ کا شکار ہو گئی اور اس کی زرخیز تہ اتر گئی۔بند اور نہریں ختم ہونے سے آئندہ کے لیے زمین کی سیرابی کا ذریعہ ختم ہو گیا۔ جہاں کبھی پانی کی فراوانی تھی وہاں لوگ پینے کے پانی کو بھی ترسنے لگے۔ سیلاب میں اکثر لوگ اور ان کے مال مویشی غرق ہو گئے، جو بچے وہ جان بچا کر مختلف ملکوں کی طرف نکل گئے اور ایسے بکھرے کہ ان کا بکھرنا عربی زبان کا ایک محاورہ بن گیا، چنانچہ کہا جانے لگا کہ فلاں قوم سبا کی طرح بکھر گئی۔

وَ بَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ …: ذَوَاتَيْ یہ ذَاتٌ کا تثنیہ ہے، والے۔ اُكُلٍ پھل۔ خَمْطٍ بکھٹا، گلے میں اٹکنے والا، بدمزہ۔ اَثْلٍ جھاؤ۔ یعنی میلوں پھیلی ہوئی وادیوں کی دونوں جانب بہترین پھلوں والے باغوں کی جگہ ہم نے ان کے لیے ایسے دو رویہ باغ اگا دیے جن میں یا تو بکھٹے، کسیلے اور بد مزہ پھلوں والے درخت تھے، یا جھاؤ کے درخت یا تھوڑی سی بیریوں کا کچھ حصہ۔ بکھٹے اور بدمزہ پھلوں اور جھاؤ پر مشتمل قطعوں کو باغ نہیں کہا جا سکتا، بطور تہکم اور مذاق صرف لفظی طور پر باغ کے مقابلے میں باغ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، البتہ بیری میں لذت ہوتی ہے۔ اس کی قلت بیان کرنے کے لیے دو لفظ استعمال فرمائے، ایک قَلِيْلٍ اور دوسرا اس میں سے بھی کچھ تھوڑا سا حصہ یعنی شَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ کا لفظ استعمال فرمایا۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.