تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 2) مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ …: اس آیت سے مقصود بھی مشرکین کی اس غلط فہمی کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی انھیں اولاد، روزی یا کوئی نعمت دے سکتا ہے یا روک سکتاہے۔ رحمت سے مراد وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے، چاہے وہ مادی ہو جیسے بارش، روزی، اولاد اور صحت وغیرہ، یا معنوی اور روحانی ہو، جیسے علم و حکمت، ایمان و اسلام، بعثت انبیاء، دعا کی قبولیت اور توبہ کی توفیق وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ بندوں کو جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ وہ اپنی نعمت کسی کو دینا چاہے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں اور روکنا چاہے تو کوئی اسے دینے والا نہیں۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد کہا کرتے تھے: [ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَ لَهُ الْحَمْدُ، وَ هُوَ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ، اللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَ لَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَ لاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ ] [ بخاري، الأذان، باب الذکر بعد الصلاۃ: ۸۴۴ ] اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک دے وہ دینے والا کوئی نہیں اور تیرے مقابلے میں کسی شان والے کو اس کی شان کوئی کام نہیں دیتی۔ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۷)، یونس (۱۰۷) اور سورۂ زمر (۳۸)۔

وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: خبر پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا۔ یہ پہلے جملے کی علت ہے کہ وہی ایسا زبردست غالب ہے کہ اس کے حکم کو کوئی روک نہیں سکتا اور ایسا کمال حکمت والا ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، کسی اور میں یہ صفات ہیں ہی نہیں، تو پھر کون ہے جو اس کے کھولے ہوئے کو بند کر سکے یا اس کے بند کیے ہوئے کو کھول سکے؟



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.