تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 2) فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا: فاء اس بات کی دلیل ہے کہ ان سے مراد بھی فرشتے ہیں، جن کا ذکر پچھلی آیت میں ہے۔ زَجْرًا تاکید کے لیے ہے، یعنی پھر ان فرشتوں کی قسم! جن کی ڈانٹ معمولی نہیں بلکہ ایسی زبردست ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوقات، خواہ کتنی بے پناہ قوت کی مالک ہوں، ان کے سامنے دم نہیں مار سکتیں، مثلاً موت کے فرشتے۔ (دیکھیے انعام: ۹۳) ہواؤں اور بادلوں پر مامور فرشتے جو انھیں ہانکتے اور چلاتے ہیں۔ (دیکھیے رعد: ۱۳) پہاڑوں پر مامور فرشتہ، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف سے واپسی پر اللہ کے حکم سے آپ کو پیش کش کی کہ اگر آپ فرمائیں تو میں آپ کی قوم کے کفار کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر ملیامیٹ کر دوں۔ صور میں پھونکنے والا فرشتہ، جس کی ایک ہی ڈانٹ سے تمام لوگ قبروں سے نکل کر زمین کے اوپر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏فَاِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ (13) فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ» ‏‏‏‏ [ النازعات: ۱۳، ۱۴] پس وہ تو صرف ایک ہی ڈانٹ ہو گی۔ پس یک لخت وہ زمین کے اوپر موجود ہوں گے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.