تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 99) وَ قَالَ اِنِّيْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ …: قرطبی نے فرمایا: یہ آیت ہجرت اور کفار سے علیحدگی اختیار کرنے میں اصل ہے۔ آگ سے سلامتی کے ساتھ نکلنے کے عظیم معجزے کے بعد بھی جب لوط علیہ السلام کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا تو ابراہیم علیہ السلام نے وہاں سے ہجرت کا فیصلہ فرمایا اور کہنے لگے، میں اپنی قوم اور اپنے وطن سے، جہاں کفر کا تسلط ہے، اپنے رب کی طرف جاتا ہوں، جہاں آزادی سے اپنے رب کی عبادت کر سکوں اور اس کے دین کی دعوت دے سکوں۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور بھتیجے لوط علیھما السلام تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی جب کسی جگہ اپنے دین پر پوری طرح عمل نہ کر سکے تو اسے وہاں سے ہجرت کرنی چاہیے۔

سَيَهْدِيْنِ: یہ اصل میں سَيَهْدِيْنِيْ ہے، یہاں سین تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا کیا گیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام جب اپنے وطن سے نکلے تو انھیں معلوم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے، مگر انھیں اپنے رب پر بھروسے کی وجہ سے یقین تھا کہ وہ ضرور ان کی راہ نمائی فرمائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اِحْفَظِ اللّٰهَ يَحْفَظْكَ ] [ ترمذي، صفۃ القیامۃ والرقائق، باب: ۲۵۱۶ ] تو اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا۔ اور یہ بات یقینی ہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر کوئی چیز چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر چیز عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی راہ نمائی مبارک سرزمین شام کی طرف فرمائی۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.