تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 107) وَ فَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ: ذِبْحٌ (ذال کے کسرہ کے ساتھ) بمعنی مَذْبُوْحٌ یعنی ہم نے اسماعیل علیہ السلام کے فدیے اور بدلے میں ایک عظیم ذبیحہ دیا۔ یہ ایک مینڈھا تھا جو ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے قربان کر دیا۔ اسے عظیم اس لیے فرمایا کہ وہ اسماعیل علیہ السلام جیسے عظیم شخص کا فدیہ تھا اور اس لیے کہ اس کی قربانی عظیم عبادت تھی، جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے سنت قرار پائی۔ تفسیری روایات میں اس مینڈھے کا جنت سے آنے کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ یہ وہی مینڈھا تھا جو آدم علیہ السلام کے بیٹے نے بطور قربانی دیا تھا۔ وہ جنت میں پلتا رہا اور اس موقع پر ابراہیم علیہ السلام کے لیے اتارا گیا۔ بعض نے کہا کہ یہ ایک پہاڑی بکرا تھا جو پہاڑ سے اتارا گیا تھا۔ مگر یہ تمام روایات اسرائیلی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بھی ثابت نہیں۔ ہاں! یہ ثابت ہے کہ وہ سینگوں والا مینڈھا تھا، جیسا کہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کعبہ کے چابی بردار) عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: [ إِنِّيْ كُنْتُ رَأَيْتُ قَرْنَيِ الْكَبْشِ حِيْنَ دَخَلْتُ الْبَيْتَ، فَنَسِيْتُ أَنْ آمُرَكَ أَنْ تُخَمِّرَهُمَا، فَخَمِّرْهُمَا فَإِنَّهُ لاَ يَنْبَغِيْ أَنْ يَكُوْنَ فِي الْبَيْتِ شَيْءٌ يَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ، قَالَ سُفْيَانُ لَمْ تَزَلْ قَرْنَا الْكَبْشِ فِي الْبَيْتِ حَتَّي احْتَرَقَ الْبَيْتُ فَاحْتَرَقَا ] [ مسند أحمد: 68/4، ح: ۱۶۶۳۷۔ مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے ] میں جب بیت اللہ میں داخل ہوا تو میں نے اس مینڈھے کے سینگ دیکھے تھے، تو میں تمھیں ان کو ڈھانپنے کا حکم دینا بھول گیا۔ سو انھیں ڈھانپ دو، کیونکہ یہ مناسب نہیں کہ بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو مشغول کرے۔ سفیان نے فرمایا: وہ سینگ بیت اللہ میں رہے، حتیٰ کہ بیت اللہ کو آگ لگ گئی تو وہ بھی جل گئے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.