تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 177) فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ …: یعنی یہ عذاب ہر حال میں ان پر آکر رہے گا۔ پھر جب وہ ان کے صحن میں اتر آیا تو جن لوگوں کو عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے اور وہ جھٹلا رہے ہیں ان کی صبح بری ہو گی۔ صبح کا لفظ خاص طور پر اس لیے ذکر فرمایا کہ عرب عموماً صبح کے وقت حملہ کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ خَرَجَ إِلٰی خَيْبَرَ فَجَاءَهَا لَيْلاً، وَ كَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَيْلٍ لاَ يُغِيْرُ عَلَيْهِمْ حَتّٰی يُصْبِحَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، خَرَجَتْ يَهُوْدُ بِمَسَاحِيْهِمْ وَ مَكَاتِلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْهُ قَالُوْا مُحَمَّدٌ وَاللّٰهِ! مُحَمَّدٌ وَ الْخَمِيْسُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ اَللّٰهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ ] [بخاري، الجہاد والسیر، باب دعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم إلی الإسلام…: ۲۹۴۵ ] نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف نکلے اور رات وہاں پہنچے اور آپ جب کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو صبح ہونے تک حملہ نہیں کرتے تھے۔ جب صبح ہوئی تو یہودی اپنی بیلچے اور ٹوکریاں لے کر نکلے۔ جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہنے لگے: محمد، اللہ کی قسم! محمد اپنے لشکر کے ساتھ (آ گئے)۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! خیبر برباد ہو گیا، ہم لوگ جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنھیں پہلے ڈرایا جا چکا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی عذاب عموماً صبح کے وقت آتا تھا، جیسے قومِ لوط کے متعلق فرمایا: «‏‏‏‏اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ» ‏‏‏‏ [ ھود: ۸۱ ] بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے، کیا صبح واقعی قریب نہیں؟



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.