تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 69)وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ …: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اور فرشتے زمین پر تشریف لائیں گے (دیکھیے سورۂ فجر: ۲۲) اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی۔ بعض لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے زمین پر آنے کے منکر ہیں اور اس کے آسمان دنیا پر اترنے کا بھی صاف انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، نہ وہ آسمان دنیا پر اترتا ہے اور نہ قیامت کے دن زمین پر آئے گا، بلکہ یہ سب مجاز ہیں، عرش سے مراد سلطنت ہے، آسمان دنیا پر اترنے کا مطلب اس کی رحمت کا نزول ہے اور قیامت کے دن آنے کا مطلب اس کا حکم آنا ہے وغیرہ۔ حالانکہ یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ مجازی معنی اس وقت مراد لیا جاتا ہے جب حقیقی معنی مراد لینا محال ہو، جب کہ یہاں حقیقی معنی لینے میں کوئی مشکل نہیں۔ ان لوگوں نے یونان کے مشرک فلسفیوں کی یہ بات مان لی کہ ہر محل حوادث حادث ہوتا ہے، اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ پر آنے والی ہر نئی حالت اور نئی شان کا انکار کر دیا۔ چنانچہ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، نہ بات کرتا ہے، نہ عرش پر ہے، نہ اترتا ہے، نہ چڑھتا ہے، نہ ناراض ہوتا ہے اور نہ راضی ہوتا ہے، کیونکہ یہ سب حوادث (نئے احوال) ہیں جو ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ پر نہیں آ سکتے۔

یہ لوگ قرآن و حدیث میں آنے والے ایسے تمام الفاظ کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جو درحقیقت تحریف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب استعارے ہیں جو عرب کے بدوؤں کے ذہن کے مطابق اللہ تعالیٰ کو ایک بادشاہ کی صورت میں پیش کرتے ہوئے استعمال کیے گئے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ اور اس کی ذات و صفات کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانا نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے۔ اصل حقیقت یونانی فلسفیوں پر منکشف ہوئی اور ان کی بدولت ان حضرات تک پہنچی۔ قرآن مجید جا بجا ان کے اس قاعدے کی نفی کرتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏يَسْـَٔلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ» ‏‏‏‏ [ الرحمٰن: ۲۹ ] اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ اور فرمایا: «قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا» ‏‏‏‏ [ المجادلۃ: ۱ ] یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔ اور فرمایا: «اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ» ‏‏‏‏ [ البقرۃ: ۱۸۶ ] میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ اور فرمایا: «‏‏‏‏وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا» ‏‏‏‏ [ النساء: ۱۶۴ ] اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔ اور فرمایا: «‏‏‏‏وَ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ» [ الشعرآء: ۵ ] اور ان کے پاس رحمان کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو، مگر وہ اس سے منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ فجر (۲۲) اور سورۂ حاقہ (۱۷) کی تفسیر۔

وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ: یعنی تمام لوگوں کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۳) اور سورۂ کہف (۴۹)۔

وَ جِايْٓءَ بِالنَّبِيّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ: شہداء (گواہوں) سے مراد نبیوں کے علاوہ ہماری امت اور پہلی تمام امتوں کے وہ نیک لوگ ہیں جنھوں نے اپنی اپنی امت کے لوگوں تک حق کا پیغام پہنچایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا» ‏‏‏‏ [ بني إسرائیل: ۱۵ ] اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔ ان شہداء میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افراد بھی شامل ہیں جو نوح علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کے حق میں شہادت دیں گے کہ انھوں نے اپنی اپنی امت کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۴۳) اور سورۂ نساء (۴۱) کی تفسیر۔ ان گواہوں میں کراماً کاتبین بھی شامل ہیں اور انسان کے اعضا بھی جو اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اسی طرح زمین بھی، جس پر کسی شخص نے کوئی نیک یا برا عمل کیا ہو گا، فرمایا: «‏‏‏‏يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا (4) بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَا» [ الزلزال: ۴، ۵ ] اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔ اس لیے کہ تیرے رب نے اسے وحی کی ہو گی۔

وَ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ …: یعنی تمام نیکیاں اور بدیاں سامنے لا کر گواہوں کے ذریعے سے حجت پوری کرنے کے بعد سب لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور لوگوں پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۴۷) اور سورۂ نساء (۴۰)۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.