تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 31) مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ …: دَأَبَ يَدْأَبُ دَأْبًا (ف) کسی کام میں مسلسل لگے رہنا۔ دَاْبِ اصل میں عادت کو کہتے ہیں، کیونکہ اس میں ہمیشگی ہوتی ہے، پھر کسی کے حال یا معاملے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ یعنی میں تمھارے بارے میں ڈرتا ہوں کہ تمھارا حال قوم نوح، عاد و ثمود اور ان لوگوں جیسا نہ ہو جو ان کے بعد تھے، مثلاً قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ، جنھوں نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا اور انھیں ایذا پہنچانے کی کوشش کی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا ایسا عذاب آیا جس نے انھیں بری طرح تباہ و برباد کر دیا۔

وَ مَا اللّٰهُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ: ظُلْمًا کی تنوین تنکیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کسی طرح کا ظلم کیا گیا ہے۔ یعنی ان اقوام پر جو عذاب آیا وہ ان کے اپنے اعمالِ بد کا نتیجہ تھا، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کسی طرح کے ظلم کا ارادہ تک نہیں کرتا تو وہ ظلم کیوں کرے گا، پھر ظلم بھی اپنے بندوں پر؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «‏‏‏‏اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـًٔا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ» ‏‏‏‏ [ یونس: ۴۴ ] بے شک اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا اور لیکن لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.