تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 43) لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِيْۤ اِلَيْهِ: یہاں اَنَّمَا کلمۂ حصر نہیں، جو اکٹھا لکھا جاتا ہے، بلکہ أَنَّ الگ ہے اور مَا موصولہ الگ ہے، معنی وہ جو۔ قرآن مجید کے اوّلین کاتبوں نے اسے یہاں اکٹھا لکھا، اس لیے اسے اکٹھا لکھا جاتا ہے۔

لَيْسَ لَهٗ دَعْوَةٌ (اس کے لیے کوئی دعوت نہیں) کے کئی معانی ہو سکتے ہیں اور سب درست ہیں۔ ایک یہ کہ نہ دنیا میں اس کا حق ہے کہ اسے پکارا جائے نہ آخرت میں۔ دوسرا یہ کہ نہ دنیا میں اسے پکارنے کا کوئی فائدہ ہے نہ آخرت میں۔ تیسرا یہ کہ نہ وہ دنیا میں کسی کی دعا قبول کر سکتا ہے نہ آخرت میں۔ گویا یہ وہی بات ہے جو سورۂ احقاف میں فرمائی ہے: «‏‏‏‏وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗۤ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ» ‏‏‏‏ [الأحقاف:۵] اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ فاطر (۱۴)۔

وَ اَنَّ مَرَدَّنَاۤ اِلَى اللّٰهِ: یعنی آخر کار ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے پاس واپس جانا ہے جو ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا یا سزا دے گا۔

وَ اَنَّ الْمُسْرِفِيْنَ هُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ: یہاں الْمُسْرِفِيْنَ (حد سے بڑھنے والوں) سے مراد کافر و مشرک ہیں، کیونکہ ہمیشہ آگ میں رہنے والے وہی ہیں، فرمایا: «‏‏‏‏اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ» [النساء: ۴۸، ۱۱۶ ] بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.