تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 26)وَ لَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِيْمَاۤ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْهِ: مَكَّنَ يُمَكِّنُ تَمْكِيْنًا کسی چیز پر قدرت دینا۔ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ میں اِنْ شرطیہ نہیں بلکہ نافیہ ہے، یعنی اگر کے بجائے نہیں کے معنی میں ہے۔ قریش مکہ کو یہ بات کہی جا رہی ہے کہ جسمانی ڈیل ڈول، مال، اولاد، قوت، سلطنت، غرض وہ دنیوی اسباب جن پر ہم نے قومِ عاد کو قدرت عطا کی تھی تمھیں ان پر قدرت عطا نہیں کی، جب اللہ کے عذاب کے سامنے ان کی تمام تر قوت و شوکت تنکوں کی طرح اڑ گئی تو تمھاری کیا بساط ہے؟ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمائی ہے، دیکھیے سورۂ روم (۹) اور سورۂ مومن (۲۱)۔

وَ جَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّ اَبْصَارًا وَّ اَفْـِٕدَةً …: دوسری جگہ ان کے متعلق فرمایا: «‏‏‏‏وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ» [ العنکبوت: ۳۸] حالانکہ وہ بہت سمجھ دار تھے۔ یعنی ہم نے انھیں سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچ بچار کے لیے دل دیے تھے، مگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو سننے، اس کی نشانیوں کو عبرت کے لیے دیکھنے اور آخرت کی زندگی کے متعلق غور و فکر کے بجائے ان سے اتنا ہی کام لیا جو دنیا کے مال و متاع کے حصول کے لیے مفید ہو۔ دنیا کے کام میں عقل مند تھے، لیکن وہ عقل نہ آئی جس سے آخرت درست ہو، آیاتِ الٰہی سنتے وقت ان کے کان بہرے ہو جاتے تھے اور آیاتِ الٰہی دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں بند ہی رہتی تھیں۔ پھر جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو ان کی عقل مندی ان کے کسی کام نہ آ سکی، کیونکہ وہ اللہ کی آیات تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا کرتے تھے۔

وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ: یعنی وہ عذاب جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو وہ کب آ رہا ہے، اسی عذاب نے انھیں گھیر لیا اور ایسا گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.