تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 48)وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا: آسمان بنانے کی طرح زمین بچھانے کو بھی دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہونے کی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا ہے اور وَفَرَشْنَا الْأَرْضَ کے بجائے وَ الْاَرْضَ فَرَشْنٰهَا میں بھی وہی بات ملحوظ ہے جو وَ السَّمَآءَ بَنَيْنٰهَا میں ملحوظ ہے۔ زمین کی پیدائش میں اس کے گول ہونے کے ذکر کے بجائے، جو ہر ایک کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی، اس بات کا ذکر فرمایا جو ہر شخص کے مشاہدے اور استعمال میں ہے اور جس سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں، کیونکہ اگر وہ ناہموار اور اونچی نیچی ہوتی تو اس پر ان کا اور ان کے جانوروں کا رہنا ہی ممکن نہ ہوتا، نہ وہ اس پر بیٹھ سکتے، نہ لیٹ سکتے اور نہ چل پھر سکتے اور اس خوشگوار زندگی اور آسائش کا تصور تک نہ ہوتا جو زمین کو بچھا کر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو عطا فرما رکھی ہے۔

فَنِعْمَ الْمٰهِدُوْنَ: أَيْ نَحْنُ یعنی ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں۔ ان آیات میں جمع متکلم (ہم) کا صیغہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اظہار کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.