تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 4)اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ …: اس آیت میں خطاب عائشہ اور حفصہ(رضی اللہ عنھما) سے ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: [ لَمْ أَزَلْ حَرِيْصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰی: «‏‏‏‏اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا» حَتّٰی حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيْقِ عَدَلَ عُمَرُ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِيْ فَسَكَبْتُ عَلٰی يَدَيْهِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا: «‏‏‏‏اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا» ‏‏‏‏؟ قَالَ عُمَرُ وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! هِيَ حَفْصَةُ وَ عَائِشَةُ ] [ مسلم، الطلاق، باب في الإیلاء …: ۳۴ /۱۴۷۹ ] مجھے ہمیشہ خواہش رہی کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ان دو عورتوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «‏‏‏‏اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا» یہاں تک کہ انھوں نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، ایک جگہ وہ راستے سے ہٹ کر (قضائے حاجت کے لیے) ایک طرف کو گئے تو میں بھی پانی کا لوٹا لے کر ان کے ساتھ اس طرف کو چلا گیا۔ پھر وہ فارغ ہو کر آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا، انھوں نے وضو کیا تو میں نے کہا: اے امیر المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے وہ دو عورتیں کون ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «‏‏‏‏اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا» ‏‏‏‏؟ انھوں نے فرمایا: ابن عباس! تم پر تعجب ہے، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ(رضی اللہ عنھما) ہیں۔

فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا: صَغَا يَصْغُوْ صَغْوًا (ن) اور صَغِيَ يَصْغٰي صَغْيًا (س) مائل ہونا، ایک طرف جھک جانا۔ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا، جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد اور ماریہ رضی اللہ عنھا سے اجتناب کی قسم کھائی تھی، اب انھیں مخاطب کر کے توبہ کی تلقین فرمائی ہے۔ اس آیت کی تفسیر تقریباً تمام قدیم مفسرین نے یہ کی ہے کہ اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور تمھیں توبہ کرنی ہی چاہیے، کیونکہ تمھارے دل درست بات سے دوسری طرف مائل ہو گئے ہیں اور تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی پسندیدہ چیزوں شہد اور ماریہ رضی اللہ عنھا سے اجتناب کی قسم تک پہنچا کر درست کام نہیں کیا۔ لفظوں کے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ آیت کا یہی مفہوم طبری، قرطبی، رازی، ابن جُزَیّ، ابن عطیہ، ابو السعود، بغوی، ابن جوزی، سمر قندی اور دوسرے جلیل القدر مفسرین نے بیان فرمایا ہے اور ظاہر بھی یہی ہے، کیونکہ ان ازواج مطہرات کی دلی خواہش کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب رضی اللہ عنھا کے ہاں شہد نہ پییں اور اپنی ام ولد ماریہ رضی اللہ عنھا کے پاس نہ جائیں، کسی طرح بھی درست قرار نہیں دی جاسکتی۔ خود اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر محبت آمیز عتاب فرمایا۔

موجودہ دور کے بعض حضرات نے اس معنی کو ان ازواج مطہرات کی توہین قرار دے کر اس کا انکار کر دیا، ان کے خیال میں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ازواج مطہرات کے دل حق سے ہٹے ہوئے تھے، حالانکہ کسی ایک بات میں کسی شخص کے دل کا میلان نا درست بات کی طرف ہو جائے تو اسے پورے راہ صواب سے ہٹا ہوا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی کسی مفسر کے کسی حاشیۂ خیال میں امہات المومنین کے متعلق کوئی ایسی بات ہے اور یہاں تو امہات المومنین نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر سر تسلیم خم کیا اور سچے دل سے توبہ کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں ان کے لیے ازواج رسول ہونے کا شرف برقرار رکھا، پھر ان کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ ان کے دل راہِ صواب سے ہٹے ہوئے تھے!؟

ایک مطلب آیت کا یہ ہے اور بعض حضرات نے اسی کو درست اور دوسرے ہر مطلب کو غلط قرار دیا ہے کہ اگر تم اللہ کی طرف توبہ کرو تو تم سے کچھ بعید نہیں، کیونکہ تمھارے دل پہلے ہی توبہ کی طرف مائل ہوچکے ہیں۔ مفسر قرطبی نے پہلے معنی کے علاوہ اس معنی کا ذکر بھی کیا ہے۔ مگر اسی کو درست اور دوسرے معنی کو غلط اور لغت عرب سے ناواقفیت قرار دینا اہل علم کا شیوہ نہیں۔ اہلِ علم کا شیوہ وہ ہے جو قرطبی نے اختیار فرمایا ہے کہ دونوں معنی ذکر فرما دیے، جو راجح تھا اسے پہلے ذکر فرمایا مگر دوسرے کا انکار نہیں کیا۔ یہ بات تسلیم کہ صَغَا يَصْغُوْ اور صَغِيَ يَصْغٰي کے الفاظ کسی چیز کی طرف مائل ہونے کے لیے آتے ہیں، مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ یہ حق ہی کی طرف مائل ہونے کے لیے آتے ہیں، ناحق کی طرف مائل ہونے کے لیے نہیں آتے۔ ناحق کی طرف مائل ہونے کا مفہوم حق سے ہٹنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ سورۂ انعام کی آیت (۱۱۳): «وَ لِتَصْغٰۤى اِلَيْهِ اَفْـِٕدَةُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ» ‏‏‏‏ میں جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے اس میں ان کے دل حق کی طرف مائل ہونے کا نہیں بلکہ ناحق ہی کی طرف مائل ہونے کا ذکر ہے۔ اس لیے شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین، احمد علی لاہوری، فتح محمد جالندھری اور دوسرے مترجمین نے پہلے مفہوم والا ترجمہ ہی کیا ہے، حتیٰ کہ ایک مترجم صاحب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا بہت بلند بانگ دعویٰ رکھتے ہیں اور اہلِ توحید کو گستاخ اور بے ادب قرار دیتے نہیں تھکتے، انھوں نے بھی یہ ترجمہ کیا ہے: نبی کی دونوں بیویو! اگر اللہ کی طرف تم رجوع کرو تو ضرور تمھارے دل راہ حق سے کچھ ہٹ گئے ہیں۔ تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے نزدیک ازواج مطہرات کے دل راہ حق سے کچھ ہٹے ہوئے تھے؟

وَ اِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ: تَظٰهَرَا باب تفاعل سے فعل مضارع ہے جو اصل میں تَتَظَاهَرَانِ تھا، ایک تاء تخفیف کے لیے حذف کر دی گئی اور حرف شرط اِنْ کی وجہ سے نون اعرابی گر گیا۔ اس کا مادہ ظَهْرٌ (پشت) ہے۔ باب تفاعل میں تشارک کا معنی ہوتا ہے، ایک دوسرے کی پشت پناہی کرنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ تَظٰهَرَا کے بعد عَلَيْهِ کا معنی ہے، اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو۔

فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ: مَوْلٰي کا معنی مالک بھی ہے اور مددگار بھی۔ اگر مالک معنی کریں تو یہ جملہ مَوْلٰىهُ پر مکمل ہو گیا اور جِبْرِيْلُ سے ظَهِيْرٌ تک الگ جملہ ہے، کیونکہ مالک صرف اللہ ہے اور کوئی مالک نہیں، جب کہ مدد اللہ کی طرف سے بھی ہوتی ہے اور بندوں کی طرف سے بھی، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏هُوَ الَّذِيْۤ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ» ‏‏‏‏ [ الأنفال: ۶۲ ] وہی ہے جس نے تجھے اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی۔ اور فرمایا: «‏‏‏‏اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ» [ التوبۃ: ۴۰ ] اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی۔ اور فرمایا: «‏‏‏‏وَ يَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ» [ الحشر: ۸ ] اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ اور فرمایا: «‏‏‏‏مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ» ‏‏‏‏ [ آل عمران: ۵۲ ] کون ہیں جو اللہ کی طرف میرے مدد گار ہیں؟ یعنی اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو تو بہتر ہے اور اگر تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک دوسری کی مدد کرو تو ہمارے رسول کو تمھاری کچھ پروا نہیں، کیونکہ اللہ اس کا مالک ہے اور جبریل اور صالح مومنین اور اس کے بعد تمام فرشتے اس کے مددگار اور پشت پناہ ہیں۔ اور اگر مَوْلٰي کا معنی مددگار کریں تو پہلا جملہ صَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ پر پورا ہوگا اور دوسرا جملہ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ (مبتدا) سے شروع ہو کر ظَهِيْرٌ پر ختم ہوگا، یعنی اگر تم دونوں اس کے خلاف ایک دوسری کی مدد کرو تو یقینا اللہ اور جبریل اور صالح مومنین اس کے مددگار ہیں اور اس کے بعد تمام فرشتے اس کے پشت پناہ اور مددگار ہیں۔ یہ دوسرا معنی راجح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ مالک تو ہر ایک کا ہے، صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں، ہاں! خاص نصرت اس کی اپنے رسولوں اور ایمان والوں کے ساتھ ہے، کفار کے ساتھ نہیں، جیسا کہ فرمایا: «اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ» [ المؤمن: ۵۱ ] بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

صَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ: صَالِحُ اسم جنس ہے جو واحد و جمع سب پر بولا جاتا ہے، اس لیے جمع کا لفظ صَالِحُوا الْمُؤْمِنِيْنَ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ: یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ مبتدا الْمَلٰٓىِٕكَةُ جمع کی خبر ظَهِيْرٌ واحد کیوں ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ فَعِيْلٌ کا وزن واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.