تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

اس سورت کی فضیلت میں کئی روایات آتی ہیں، جن میں سے چند صحیح یا حسن احادیث درج ذیل ہیں: (1) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ سُوْرَةً مِّنَ الْقُرْآنِ ثَلاَثُوْنَ آيَةً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتّٰي غُفِرَ لَهُ وَهِيَ سُوْرَةُ: «تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ» ] [ ترمذي، فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل سورۃ الملک: ۲۸۹۱۔ أبو داوٗد: ۱۴۰۰، و حسنہ الألباني ] قرآن کی ایک سورت نے جس کی تیس آیات ہیں، ایک آدمی کے لیے سفارش کی یہاں تک کہ اسے بخش دیا گیا اور وہ سورت «‏‏‏‏تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ» ہے۔ (2) انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ سُوْرَةٌ مِّنَ الْقُرْآنِ مَا هِيَ إِلاَّ ثَلاَثُوْنَ آيَةً خَاصَمَتْ عَنْ صَاحِبِهَا حَتّٰي أَدْخَلَتْهُ الْجَنَّةَ، وَهِيَ سُوْرَةُ تَبَارَكَ ] [ المعجم الصغیر للطبراني: 296/1، ح: ۴۹۰، وصححہ الألباني۔ صحیح الجامع الصغیر: ۳۶۴۴ ] قرآن کی ایک سورت نے، جس کی صرف تیس آیات ہیں، اپنے پڑھنے والے کی طرف سے جھگڑا کیا یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کروا دیا اور وہ سورت تَبٰرَكَ (الملک) ہے۔ (3) ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوتے نہیں تھے یہاں تک کہ «الٓمّٓ (1) تَنْزِيْلُ» ‏‏‏‏ اور «‏‏‏‏تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ» پڑھتے۔ [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، ح: ۱۱۴۰ ] (4) جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوتے نہیں تھے یہاں تک کہ «‏‏‏‏الٓمّٓ (1) تَنْزِيْلُ» ‏‏‏‏ اور «تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ» پڑھتے۔ [ ترمذي، فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل سورۃ الملک: ۲۸۹۲، وصححہ الألباني ]

(آیت 1) تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ: تَبٰرَكَ بَرَكَةٌ سے باب تفاعل ہے۔ اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے، اسی مناسبت سے ترجمہ بہت برکت والا کیا گیا ہے۔ بَرَكَةٌ کے معنی ہیں زیادہ ہونا، بڑھا ہونا۔ تَبٰرَكَ یعنی وہ خیر اور بھلائی میں ساری کائنات سے بے انتہا بڑھا ہوا ہے اور بلندی، بڑائی اور احسان، غرض ہر لحاظ سے اس کی ذات بے حدوحساب خوبیوں اور بھلائیوں کی جامع ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ فرقان کی پہلی آیت کی تفسیر۔

بِيَدِهِ پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا، اس لیے ترجمہصرف اس کے ہاتھ میں ہے کیا گیا ہے۔

➌ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بادشاہ تو بہت ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ کیسے فرما دیا کہ تمام بادشاہی صرف اس کے ہاتھ میں ہے؟ جواب یہ ہے کہ دنیا کا سارا نظام ایک دوسرے کی محتاجی پر چل رہا ہے، رعایا اپنی ضروریات مثلاً جان و مال، عزت و آبرو اور دین و ایمان کی حفاظت کے لیے بادشاہ کی محتاج ہے اور بادشاہ اپنے کام چلانے کے لیے رعایا کا محتاج ہے، اگر وہ اس کا ساتھ نہ دیں اور اسے ٹیکس نہ دیں تو وہ ایک لمحہ کے لیے بادشاہ نہیں رہ سکتا۔ سورۂ زخرف میں یہی نکتہ بیان کیا گیا ہے، فرمایا: «‏‏‏‏لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا» ‏‏‏‏ [ الزخرف: ۳۲ ] تاکہ ان کا بعض بعض کو تابع بنالے۔ ایک شاعر نے دنیوی بادشاہوں کی محتاجی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:

مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج

کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطان سب گدا

اس کے علاوہ دنیا میں کوئی بادشاہ ہے یا محکوم، ایک دوسرے کے محتاج ہونے کے باوجود دونوں میں سے کسی کے بھی ہاتھ میں فی الحقیقت کچھ بھی نہیں۔ ان کی اپنی دولت و فقر، صحت و بیماری، عزت و ذلت، فتح و شکست، جوانی و بڑھاپا، نفع و نقصان اور موت و حیات، غرض سب کچھ اللہ مالک الملک کے ہاتھ میں ہے، تو پھر یہ کہنے میں کیا مبالغہ ہے کہ تمام بادشاہی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے؟ دوسرا کوئی بادشاہ ہے بھی تو نام کا ہے۔ حقیقت میں بادشاہ ایک ہی ہے، باقی سب گدا ہیں، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ» [فاطر: ۱۵ ] اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو۔

وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ: شَيْءٍ شَاءَ يَشَاءُ کا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، چاہت۔ یعنی وہ اپنی ہر چاہت اور ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہے کر سکتا ہے۔ دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں کہ جن کی بے شمار چاہتیں پوری ہونے کے بجائے حسرتیں بن کر ان کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہو جاتی ہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.